اسرائیل میں پہلی بار احتجاجی قائدین قبضے کے خلاف بات کر رہے ہیں

جو کہ 38 ہفتوں کے مظاہروں کے بعد ہے، جس میں انہوں نے مسئلہ فلسطین کا ذکر کرنے سے گریز کیا

عدلیہ سے متعلق نیتن یاہو کے منصوبوں کے خلاف اسرائیلی ریزرو فوجیوں کی جانب سے کیے گئے پچھلے احتجاج کا منظر (اے پی)
عدلیہ سے متعلق نیتن یاہو کے منصوبوں کے خلاف اسرائیلی ریزرو فوجیوں کی جانب سے کیے گئے پچھلے احتجاج کا منظر (اے پی)
TT

اسرائیل میں پہلی بار احتجاجی قائدین قبضے کے خلاف بات کر رہے ہیں

عدلیہ سے متعلق نیتن یاہو کے منصوبوں کے خلاف اسرائیلی ریزرو فوجیوں کی جانب سے کیے گئے پچھلے احتجاج کا منظر (اے پی)
عدلیہ سے متعلق نیتن یاہو کے منصوبوں کے خلاف اسرائیلی ریزرو فوجیوں کی جانب سے کیے گئے پچھلے احتجاج کا منظر (اے پی)

اسرائیل میں حکومتی سسٹم اور عدالتی نظام میں انقلاب سے متعلق حکومتی منصوبے کے خلاف 38 ہفتوں سے جاری مظاہروں میں لاکھوں شہریوں کی شمولیت کے ساتھ احتجاجی رہنماؤں نے بینجمن نیتن یاہو کی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے بیانات دیئے اور کہا کہ وہ امن کے بارے میں اپنی باتوں میں ہرگز مخلص نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ قابض حکومت اور حکمران دائیں بازو کے منصوبے کے ساتھ ساتھ اپنے عوامی وعدوں کو بھی چھوڑ دیا ہے اور وہ اپنے انتہائی دائیں بازو کے ٹھکانوں پر واپس آنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

اگرچہ احتجاجی رہنماؤں نے دیگر اسرائیلی اپوزیشن رہنماؤں کی طرح ابراہیم امن معاہدے کی حمایت کا اظہار کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نئی چال سے خبردار کیا جو خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ احتجاجی مظاہروں کی سب سے نمایاں خاتون رہنما پروفیسر شکما پریسلر نے کہا: "ہم نیتن یاہو کی کسی بھی چال سے بیوقوف نہیں بنیں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگ ہیں جو "ایک مسیحی آمریت چاہتے ہیں وہ انتہائی دائیں بازو کی طاقت کو مضبوط کرکے فلسطینیوں کے ساتھ امن کے راستے پر پیشرفت کے کسی بھی امکان کو کمزور کر رہے ہیں۔" (...)

پیر-10 ربیع الاول 1445ہجری، 25 ستمبر 2023، شمارہ نمبر[16372]



تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟
TT

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

گزشتہ ہفتہ کے روز تائیوان کے صدارتی انتخابات میں "آزادی" کی حامی حکمران جماعت کے امیدوار کی مسلسل تیسری بار فتح  نے تائیوان کی عمومی فضا کو ظاہر کیا جو "آزادی" کے نقطہ نظر پر قائم ہے، جسے یہ خود مختار جزیرہ چینی سرزمین کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیروی کرتا ہے۔ اسی طرح چینی دھمکیاں ایک ایسے امیدوار کو تائیوان کی صدارت تک پہنچنے میں ناکام رہی ہیں، جسے وہ "علیحدگی پسند" شمار کرتا ہے۔

تائیوان کی صدارت میں حریت پسندوں کی نئی جیت

خبر رساں ادارے "روئٹرز" کے مطابق، حکمران جماعت کے امیدوار لائی چنگ تی نے گزشتہ ہفتہ 13 جنوری کو ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات، جسے چین جنگ اور امن کے درمیان انتخاب قرار دے رہا تھا، میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

تائیوان میں حالیہ صدارتی انتخابات میں 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لائی چنگ تی (جو چین سے آزادی کا رجحان رکھتے ہیں) کی فتح کے ساتھ حکمران پارٹی (پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی) کے ووٹوں میں واضح کمی دیکھی گئی۔ کیونکہ اگلے مئی میں اپنی صدارتی مدت مکمل کرنے والی تائیوان کی حالیہ صدر سائی انگ وین کے مقابلے میں ووٹنگ کی یہ تعداد 4 سال پہلے  کی بہ نسبت 57 فیصد ہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے وسط میں جزیرے کی جمہوری منتقلی کے بعد سے تائیوان کی ایک سیاسی جماعت نے مسلسل تین صدارتی انتخابات جیتے ہیں، اس طرح یہ اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات ہیں۔ (...)

بدھ-05 رجب 1445ہجری، 17 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16486]