"حماس" کے حملے کے بعد "اسرائیلی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں" پر سوالیہ نشان

اسرائیلی فوجی پیر کے روز تل ابیب کے فوجی قبرستان کی طرف "حماس" کے مسلح عناصر کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجی کا تابوت لے جا رہے ہیں (اے پی)
اسرائیلی فوجی پیر کے روز تل ابیب کے فوجی قبرستان کی طرف "حماس" کے مسلح عناصر کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجی کا تابوت لے جا رہے ہیں (اے پی)
TT

"حماس" کے حملے کے بعد "اسرائیلی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں" پر سوالیہ نشان

اسرائیلی فوجی پیر کے روز تل ابیب کے فوجی قبرستان کی طرف "حماس" کے مسلح عناصر کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجی کا تابوت لے جا رہے ہیں (اے پی)
اسرائیلی فوجی پیر کے روز تل ابیب کے فوجی قبرستان کی طرف "حماس" کے مسلح عناصر کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجی کا تابوت لے جا رہے ہیں (اے پی)

اگرچہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے بین الاقوامی سطح پر ایجنسیوں میں کئی دہائیوں کے دوران اپنے حاصل کردہ کامیابیوں کی وجہ سے ناقابل تسخیر ہونے کی شہرت حاصل کیے رکھی، جیسا کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں منصوبوں کو ناکام بنایا اور دبئی میں "حماس" کے کارکنوں کا تعاقب کیا اور اسی طرح تہران کے مرکز میں ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کرنے کا الزام بھی اس پر لگایا گیا اور یہاں تک کہ جب اس کی کوششیں ناکام ہو رہی تھیں تب بھی موساد، شن بیٹ اور ملٹری انٹیلی جنس جیسی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا بھرم برقرار رکھا۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" کی رپورٹ کے مطابق، رواں ہفتے کے شروع میں یہودیوں کی ایک اہم تعطیل کے موقع پر "حماس" کی طرف سے کیے گئے حملے نے اسرائیل کو حیران کر دیا اور اس کی ایجنسیوں کی شہرت پر شکوک پیدا ہوئے جو اس کمزور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کی تیاری پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف امیڈور کا کہنا ہے کہ، "جو کچھ ہوا وہ ایک بڑی ناکامی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ، "یہ کارروائی عملی طور پر ثابت کرتی ہے کہ غزہ میں انٹیلی جنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں۔" لیکن امیڈرور نے اس ناکامی کی وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ "صورتحال پرسکون ہونے پر اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔" (...)

منگل-25 ربیع الاول 1445ہجری، 10 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16387]



تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟
TT

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

گزشتہ ہفتہ کے روز تائیوان کے صدارتی انتخابات میں "آزادی" کی حامی حکمران جماعت کے امیدوار کی مسلسل تیسری بار فتح  نے تائیوان کی عمومی فضا کو ظاہر کیا جو "آزادی" کے نقطہ نظر پر قائم ہے، جسے یہ خود مختار جزیرہ چینی سرزمین کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیروی کرتا ہے۔ اسی طرح چینی دھمکیاں ایک ایسے امیدوار کو تائیوان کی صدارت تک پہنچنے میں ناکام رہی ہیں، جسے وہ "علیحدگی پسند" شمار کرتا ہے۔

تائیوان کی صدارت میں حریت پسندوں کی نئی جیت

خبر رساں ادارے "روئٹرز" کے مطابق، حکمران جماعت کے امیدوار لائی چنگ تی نے گزشتہ ہفتہ 13 جنوری کو ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات، جسے چین جنگ اور امن کے درمیان انتخاب قرار دے رہا تھا، میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

تائیوان میں حالیہ صدارتی انتخابات میں 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لائی چنگ تی (جو چین سے آزادی کا رجحان رکھتے ہیں) کی فتح کے ساتھ حکمران پارٹی (پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی) کے ووٹوں میں واضح کمی دیکھی گئی۔ کیونکہ اگلے مئی میں اپنی صدارتی مدت مکمل کرنے والی تائیوان کی حالیہ صدر سائی انگ وین کے مقابلے میں ووٹنگ کی یہ تعداد 4 سال پہلے  کی بہ نسبت 57 فیصد ہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے وسط میں جزیرے کی جمہوری منتقلی کے بعد سے تائیوان کی ایک سیاسی جماعت نے مسلسل تین صدارتی انتخابات جیتے ہیں، اس طرح یہ اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات ہیں۔ (...)

بدھ-05 رجب 1445ہجری، 17 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16486]