نیتن یاہو فوج کے ساتھ "الجھتے" ہیں... اور پھر معذرت کرتے ہیں

ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو انہیں "حکمرانی کرنے اور جنگ چلانے کے لیے نااہل" سمجھتے ہیں

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (رائٹرز)
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (رائٹرز)
TT

نیتن یاہو فوج کے ساتھ "الجھتے" ہیں... اور پھر معذرت کرتے ہیں

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (رائٹرز)
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (رائٹرز)

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو "حکمرانی کرنے اور جنگی امور کو چلانے کے لیے نااہل" ماننے والے اسرائیلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ دائیں بازو کے کیمپ میں ان کے ساتھی بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ تجربہ کار رہنما نہیں رہے۔ وہ تین ہفتے قبل "حماس" کے حملے کے بعد سے ان کے اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ان کے بدلتے فیصلوں اور متضاد بیانات پر حیران ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو طاقت کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کمزوری میں بدل رہی ہے، اور ان کی کارکردگی سے اندرون ملک ان کے مخالفین کو اور بیرون ملک ان کے دشمنوں کو تقویت مل رہی ہے، جب کہ عوام جنہوں نے انہیں اقتدار میں اکثریت دلائی تھی، انہیں فوری طور پر ناپسند کرنے لگی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور یہ سب کچھ اس جنگ کے درمیان ہے جو 7 اکتوبر سے جاری ہے۔ مزید یہاں تک کہ جب انہوں نے تحریری طور پر معافی مانگی اور لکھا: "میں معافی چاہتا ہوں، مجھ سے غلطی ہوگئی،" تب بھی عوام نے ان پر یقین نہیں کیا۔

صحافیوں کا سامنا

جب انہوں نے رات گئے جنگی کمان کے دو ارکان، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور ریاستی وزیر بینی گانٹز، کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی اور جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار صحافیوں کو آگاہ کیا گیا کہ انہیں سوالات کرنے کی اجازت ہوگی۔ چنانچہ صرف انہی سے سوالات کیے گئے۔ جن میں ایک سوال اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے نمائندے نے "ان رپورٹس کے بارے میں اٹھایا جس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ انہیں جنگ سے پہلے ہی ملٹری انٹیلی جنس ڈویژن (امان) کے سربراہ اہرون حلیوہ اور جنرل انٹیلی جنس ایجنسی (شن بیٹ) کے سربراہ رونن بار سے دستاویزات موصول ہوئی تھیں، جن میں جنگ چھڑنے کے بڑھتے ہوئے امکان کے بارے میں انہیں خبردار کیا گیا تھا۔" یہ سوال کیے جانے پر ان کے چہرے اور لہجے پر الجھن ظاہر ہوئی اور انہوں نے کہا: "اٹھائے گئے تمام معاملات کی جانچ کی جائے گی اور مجھ سمیت ہر کسی سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اب ہم سب دشمن کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے فوجی ہیں، جو ہم سب کو نقشے سے مٹانا چاہتا ہے۔" (...)

پیر-15 ربیع الثاني 1445ہجری، 30 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16407]



تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟
TT

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

تائیوان کے انتخابات کے چین کے ساتھ تعلقات پر ممکنہ کیا اثرات ہونگے؟

گزشتہ ہفتہ کے روز تائیوان کے صدارتی انتخابات میں "آزادی" کی حامی حکمران جماعت کے امیدوار کی مسلسل تیسری بار فتح  نے تائیوان کی عمومی فضا کو ظاہر کیا جو "آزادی" کے نقطہ نظر پر قائم ہے، جسے یہ خود مختار جزیرہ چینی سرزمین کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیروی کرتا ہے۔ اسی طرح چینی دھمکیاں ایک ایسے امیدوار کو تائیوان کی صدارت تک پہنچنے میں ناکام رہی ہیں، جسے وہ "علیحدگی پسند" شمار کرتا ہے۔

تائیوان کی صدارت میں حریت پسندوں کی نئی جیت

خبر رساں ادارے "روئٹرز" کے مطابق، حکمران جماعت کے امیدوار لائی چنگ تی نے گزشتہ ہفتہ 13 جنوری کو ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات، جسے چین جنگ اور امن کے درمیان انتخاب قرار دے رہا تھا، میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

تائیوان میں حالیہ صدارتی انتخابات میں 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لائی چنگ تی (جو چین سے آزادی کا رجحان رکھتے ہیں) کی فتح کے ساتھ حکمران پارٹی (پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی) کے ووٹوں میں واضح کمی دیکھی گئی۔ کیونکہ اگلے مئی میں اپنی صدارتی مدت مکمل کرنے والی تائیوان کی حالیہ صدر سائی انگ وین کے مقابلے میں ووٹنگ کی یہ تعداد 4 سال پہلے  کی بہ نسبت 57 فیصد ہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے وسط میں جزیرے کی جمہوری منتقلی کے بعد سے تائیوان کی ایک سیاسی جماعت نے مسلسل تین صدارتی انتخابات جیتے ہیں، اس طرح یہ اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات ہیں۔ (...)

بدھ-05 رجب 1445ہجری، 17 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16486]