تحریک "الشباب" کے صومالیہ سے باہر دو پڑوسی ممالک ایتھوپیہ اور کینیا میں دہشت گردانہ حملوں میں توسیع کے اثرات کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تحریک "ایک وجودی مخمصے سے گزر رہی ہے اور صومالیہ سے باہر اس کے حملے، اپنی موجودگی کو ظاہر اور ثابت کرنے کی کوشش ہو سکتے ہیں۔"
کینیا کی پولیس نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس کے 9 ارکان کو ان کی کار پر ایک دھماکہ خیز ڈیوائس کے ذریعے حملے میں مار دیا گیا ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اسے صومالیہ کی تحریک "الشباب" کی جانب سے کیا گیا ہے۔ جب کہ یہ حملہ منگل کے روز صومالیہ کی سرحد پر واقع مشرقی کینیا کے صوبہ گاریسا میں ہوا۔ علاقے کے گورنر جان اوٹینو نے کہا کہ: "(الشباب تحریک) اب سیکورٹی فورسز اور سیاحوں کی گاڑیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔"
یاد رہے کہ یہ تحریک اکثر کینیا پر اس کی افواج کو واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے حملے کرتی ہے، جو افریقی یونین کی طرف سے تعینات "امن کی حفاظت" کرنے والی فورسز کا حصہ ہے۔ جب کہ کینیا کی فوج نے تحریک کے خلاف لڑنے کے لیے 2011 میں صومالیہ میں مداخلت کی اور پھر 2012 میں اس کی فوج صومالیہ میں افریقی یونین کی طرف سے تعینات امن فورسز میں شامل ہو گئی۔
چنانچہ کینیا 2011 کے بعد سے بہت سے خونریز حملوں کا نشانہ رہا ہے جن کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ تحریک نے کیا تھا، جن میں سرفہرست نیروبی کے "ویسٹ گیٹ" شاپنگ سینٹر پر 2013 میں کیا گیا حملہ ہے، جس میں 67 افراد ہلاک ہوئے، اس کے بعد 2015 میں میں گاریسا یونیورسٹی پر حملہ، جس میں 148 افراد ہلاک ہوئے اور پھر 2019 میں "دوسیٹ" ہوٹل کمپلیکس پر حملہ شامل ہے، جس میں 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔(...)
جمعہ - 27 ذوالقعدہ 1444 ہجری - 16 جون 2023ء شمارہ نمبر [16271 ]