حجاج کرام یوم ترویہ منیٰ میں گزار رہے ہیں۔۔۔ اور وہ "منگل" کا روز میدان عرفات کی پاکیزہ پر گزاریں گے

مکہ المکرمہ اور مقدس مقامات پر 6 روز تک جاری رہنے والی اپنے ایمانی سفر کے دوران

حجاج کرام منیٰ کی طرف بڑھنے سے پہلے مکہ المکرمہ میں "مسجد عائشہ (عمرہ)" میں نماز ادا کر رہے ہیں (الشرق الاوسط)
حجاج کرام منیٰ کی طرف بڑھنے سے پہلے مکہ المکرمہ میں "مسجد عائشہ (عمرہ)" میں نماز ادا کر رہے ہیں (الشرق الاوسط)
TT

حجاج کرام یوم ترویہ منیٰ میں گزار رہے ہیں۔۔۔ اور وہ "منگل" کا روز میدان عرفات کی پاکیزہ پر گزاریں گے

حجاج کرام منیٰ کی طرف بڑھنے سے پہلے مکہ المکرمہ میں "مسجد عائشہ (عمرہ)" میں نماز ادا کر رہے ہیں (الشرق الاوسط)
حجاج کرام منیٰ کی طرف بڑھنے سے پہلے مکہ المکرمہ میں "مسجد عائشہ (عمرہ)" میں نماز ادا کر رہے ہیں (الشرق الاوسط)

اس سال سنہ 1444 ہجری میں حج کے دوران 2 ملین سے زائد حجاج کرام مکہ المکرمہ اور مقدس مقامات کے قرب و جوار میں اپنے ایمانی سفر کا آغاز کرتے ہوئے اللہ کے مہمان بنیں گے، جو کہ 6 روز تک جاری رہے گا، اللہ تعالی کی نظر عنایت اور توفیق سے سعودی حکام کی جانب سے اللہ کے ان مہمانوں کی خدمت، سیکورٹی اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے جو کاوشیں کی گئیں ہیں ان سے حجاج کرام پرسکون ہیں۔

حجاج کرام سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے آج "پیر" کے روز 8 ذی الحجہ کو مغرب کے بعد سے تمام رات منیٰ میں گزاریں گے، اور پھر صبح طلوع فجر سے عرفات کے میدان کی جانب جانا شروع کر دیں گے، جہا ں یہ نویں ذی الحجہ کا دن اس پاکیزہ سرزمین پر رُکے رہیں گے۔

سعودی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پاسپورٹ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس سال 1444 ہجری کے حج سیزن کے دوران 6 ذی الحجہ بروز ہفتہ کے اختتام تک سعودی عرب کی تمام فضائی، زمینی اور سمندری بندرگاہوں سے 16,55,188 عازمین حج سعودی عرب میں داخل ہوئے ہیں۔

جب کہ اس سال خادم حرمین شریفین کے خرچ پر مناسک حج ادا کرنے والے مرد و خواتین حجاج کرام کی تعداد 4951 ہے، جو مختلف براعظموں کے تقریباً 90 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں "فیصلہ کن طوفان" اور یمنی افواج کے شہداء کے اہل خانہ میں سے 2,000 حجاج کرام اور فلسطینی شہداء، زخمیوں اور قیدیوں کے لواحقین اور اہل خانہ کے 1000 مرد و خواتین عازمین حج شامل ہیں۔ (...)

پیر-08 ذوالحج 1444 ہجری، 26 جون 2023، شمارہ نمبر[16281]

 



اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
TT

اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف آج جمعرات کے روز ایک قانونی جنگ شروع کر رہی ہے کہ آیا غزہ میں "حماس" کے خلاف اسرائیل کی جنگ نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں اس نے ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کاروائیوں کو "فوری طور پر روکنے کا حکم" صادر کریں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ سابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن اس ہفتے سماعتوں میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے وفد میں شامل ہوں گے۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ، جس کے حل ہونے میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے، اسرائیل جو کہ "ہولوکاسٹ میں نازی نسل کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہودی ریاست" ہے اس کے قومی تشخص کے مرکز کو متاثر کرے گا۔ اسی طرح اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے تشخص سے بھی ہے، کیونکہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس نے طویل عرصے سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ 1994 سے پہلے ملک پر زیادہ تر سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام اقلیت کے عنصریت پر مبنی نظام حکومت کے تحت اپنی تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل طویل عرصے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی عدالتوں کو متعصب اور غیر منصفانہ سمجھتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھیجے گا تاکہ "حماس" کی طرف سے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع کیے گئے اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کر سکے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جولیٹ میکانٹائر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں وہ (اسرائیلی) اس لیے عدالت انصاف آئے ہیں کیونکہ وہ اپنا نام صاف کرنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نسل کشی کے الزامات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔"

جمعرات-29 جمادى الآخر 1445ہجری، 11 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16480]