بھارت میں ہونے والے (G20) اجلاسوں کے گرد "اختتامی بیانات کی گرہ" کا محاصرہ

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن منگل کے روز "گروپ آف ٹوئنٹی" کے وزارتی اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے پی)
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن منگل کے روز "گروپ آف ٹوئنٹی" کے وزارتی اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے پی)
TT

بھارت میں ہونے والے (G20) اجلاسوں کے گرد "اختتامی بیانات کی گرہ" کا محاصرہ

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن منگل کے روز "گروپ آف ٹوئنٹی" کے وزارتی اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے پی)
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن منگل کے روز "گروپ آف ٹوئنٹی" کے وزارتی اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے پی)

دو بھارتی عہدیداروں نے "رائٹرز" کو بتایا کہ گروپ آف ٹوئنٹی (G20) کے وزرائے خزانہ اور اقتصادی پالیسی سازوں کے درمیان دو روزہ اجلاس منگل کے روز بغیر کسی مشترکہ بیان کے ختم ہو گیا، جس کی وجہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات ہیں۔

"گروپ آف ٹوئنٹی (G20)" کی صدارت نے کہا کہ بھارت کثیرالطرفہ بینکاری کی اصلاحات پر اتفاق رائے تک پہنچنے کی امید کرتا ہے، جو کہ کرپٹو کرنسیوں پر ایک عالمی ابتدائی رہنما اصول ہوگا، جس سے خطرے سے دوچار ممالک کے قرضوں کے علاج میں تیزی لانے کی امید ہے، لیکن اس ضمن میں عالمی سفارتکاری پر روس اور یوکرین تنازعے کے سائے آ چکے ہیں۔

ایک بھارتی حکومتی اہلکار، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، نے مغربی بھارت کے شہر گاندھی نگر میں مذاکرات کے آخری دن کہا:  "ہمارے تمام ایجنڈے آگے بڑھ رہے ہیں اور سب نے اس پر اتفاق کیا ہے۔"

بھارتی اہلکار نے مزید کہا کہ زیادہ تر مغربی ممالک جیسے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے روس اور یوکرین میں جنگ کی شدید مذمت کرنے کی کوشش کی جبکہ روس اور چین نے ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کی۔

اہلکار نے مزید کہا کہ بھارت بطور میزبان ملک تمام رکن ممالک کے لیے قابل قبول حتمی بیان تیار کرنے سے قاصر ہے۔ جیسا کہ کچھ ممالک نے اس تنازعہ کو "جنگ" سے تعبیر کرنے پر اصرار کیا، جب کہ روس اسے اپنی ایک مہم قرار دیتے ہوئے "خصوصی فوجی آپریشن" کہتا ہے جو اب سولہویں مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔ (...)

بدھ-01 محرم الحرام 1445ہجری، 19جولائی 2023، شمارہ نمبر[16304]



اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
TT

اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف آج جمعرات کے روز ایک قانونی جنگ شروع کر رہی ہے کہ آیا غزہ میں "حماس" کے خلاف اسرائیل کی جنگ نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں اس نے ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کاروائیوں کو "فوری طور پر روکنے کا حکم" صادر کریں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ سابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن اس ہفتے سماعتوں میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے وفد میں شامل ہوں گے۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ، جس کے حل ہونے میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے، اسرائیل جو کہ "ہولوکاسٹ میں نازی نسل کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہودی ریاست" ہے اس کے قومی تشخص کے مرکز کو متاثر کرے گا۔ اسی طرح اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے تشخص سے بھی ہے، کیونکہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس نے طویل عرصے سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ 1994 سے پہلے ملک پر زیادہ تر سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام اقلیت کے عنصریت پر مبنی نظام حکومت کے تحت اپنی تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل طویل عرصے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی عدالتوں کو متعصب اور غیر منصفانہ سمجھتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھیجے گا تاکہ "حماس" کی طرف سے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع کیے گئے اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کر سکے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جولیٹ میکانٹائر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں وہ (اسرائیلی) اس لیے عدالت انصاف آئے ہیں کیونکہ وہ اپنا نام صاف کرنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نسل کشی کے الزامات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔"

جمعرات-29 جمادى الآخر 1445ہجری، 11 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16480]