سلامتی کونسل کے اختلاف کی وجہ سے جنوبی لبنان میں بین الاقوامی افواج کی توسیع میں تاخیر

سفارت کار زمینی سرحدی مشكلات کے حل اور "يونيفيل" کی نقل و حرکت کی آزادی کے لیے تيزى سے كوششيں كر رہے ہیں

اسرائیلی فوجی لبنان کے ساتھ سرحدی باڑ کے پیچھے اپنی پوزیشنوں پر ہیں اور سرحد کے لبنانی جانب UNIFIL سائٹ کا نشان (اے ایف پی)
اسرائیلی فوجی لبنان کے ساتھ سرحدی باڑ کے پیچھے اپنی پوزیشنوں پر ہیں اور سرحد کے لبنانی جانب UNIFIL سائٹ کا نشان (اے ایف پی)
TT

سلامتی کونسل کے اختلاف کی وجہ سے جنوبی لبنان میں بین الاقوامی افواج کی توسیع میں تاخیر

اسرائیلی فوجی لبنان کے ساتھ سرحدی باڑ کے پیچھے اپنی پوزیشنوں پر ہیں اور سرحد کے لبنانی جانب UNIFIL سائٹ کا نشان (اے ایف پی)
اسرائیلی فوجی لبنان کے ساتھ سرحدی باڑ کے پیچھے اپنی پوزیشنوں پر ہیں اور سرحد کے لبنانی جانب UNIFIL سائٹ کا نشان (اے ایف پی)

سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان اختلافات کی وجہ سے بدھ کے روز دوپہر سے قبل ہونے والی ووٹنگ ملتوی ہو گئی ہے، جب کہ لبنان میں اقوام متحدہ کے عبوری فوجی مشن (UNIFIL) کو توسیع دینے کے لیے یہ مسودہ قرارداد فرانس کی جانب سے تیار کيا گیا تها۔ جب کہ سفارت کاروں نے اختلافات جاری رہنے کی صورت میں متبادل آپشنز کا اشارہ دیا۔

ایک مغربی سفارت کار نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "يونيفيل" کے موجودہ مینڈیٹ کی معیاد جمعرات کی شام 31 اگست کو ختم ہونے سے پہلے وقت کے خلاف ایک دوڑ لگ رہی تھی تاکہ متعدد ممالک کی طرف سے "لبنانی جكومت كو پیش کردہ تجاویز" پر غور كرتے ہوئے باہمی اختلاف رائے کو ختم کیا جائے اور الغجر قصبے کے شمالی حصے اور اس سے ملحقہ علاقے سے اسرائیل کے انخلاء کی ضرورت سے متعلق متن میں ترمیم کی جائے۔

فرانسیسی سفارت کاری نے اس مطالبے کا جواب ایک پیراگراف کے ساتھ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل "حکومت اسرائیل پر زور دیتی ہے کہ وہ شمالی الغجر اور ماری قصبے کے باہر اس سے ملحقہ بلیو لائن کے شمال میں واقع علاقے سے اپنی فوج کے انخلاء کو تیز کرے، اور انخلاء میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اسرائیل اور لبنان کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل "يونيفل" کے ساتھ کوآرڈینیشن میں مزيد کوئی تاخیر نہ كرے۔ (...)

جمعرات-15صفر 1445ہجری، 31 اگست 2023، شمارہ نمبر[16347]



اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
TT

اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف آج جمعرات کے روز ایک قانونی جنگ شروع کر رہی ہے کہ آیا غزہ میں "حماس" کے خلاف اسرائیل کی جنگ نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں اس نے ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کاروائیوں کو "فوری طور پر روکنے کا حکم" صادر کریں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ سابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن اس ہفتے سماعتوں میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے وفد میں شامل ہوں گے۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ، جس کے حل ہونے میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے، اسرائیل جو کہ "ہولوکاسٹ میں نازی نسل کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہودی ریاست" ہے اس کے قومی تشخص کے مرکز کو متاثر کرے گا۔ اسی طرح اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے تشخص سے بھی ہے، کیونکہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس نے طویل عرصے سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ 1994 سے پہلے ملک پر زیادہ تر سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام اقلیت کے عنصریت پر مبنی نظام حکومت کے تحت اپنی تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل طویل عرصے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی عدالتوں کو متعصب اور غیر منصفانہ سمجھتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھیجے گا تاکہ "حماس" کی طرف سے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع کیے گئے اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کر سکے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جولیٹ میکانٹائر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں وہ (اسرائیلی) اس لیے عدالت انصاف آئے ہیں کیونکہ وہ اپنا نام صاف کرنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نسل کشی کے الزامات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔"

جمعرات-29 جمادى الآخر 1445ہجری، 11 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16480]