اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

جنوبی افریقہ نے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کے احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
TT

اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف آج جمعرات کے روز ایک قانونی جنگ شروع کر رہی ہے کہ آیا غزہ میں "حماس" کے خلاف اسرائیل کی جنگ نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں اس نے ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کاروائیوں کو "فوری طور پر روکنے کا حکم" صادر کریں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ سابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن اس ہفتے سماعتوں میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے وفد میں شامل ہوں گے۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ، جس کے حل ہونے میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے، اسرائیل جو کہ "ہولوکاسٹ میں نازی نسل کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہودی ریاست" ہے اس کے قومی تشخص کے مرکز کو متاثر کرے گا۔ اسی طرح اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے تشخص سے بھی ہے، کیونکہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس نے طویل عرصے سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ 1994 سے پہلے ملک پر زیادہ تر سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام اقلیت کے عنصریت پر مبنی نظام حکومت کے تحت اپنی تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل طویل عرصے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی عدالتوں کو متعصب اور غیر منصفانہ سمجھتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھیجے گا تاکہ "حماس" کی طرف سے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع کیے گئے اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کر سکے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جولیٹ میکانٹائر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں وہ (اسرائیلی) اس لیے عدالت انصاف آئے ہیں کیونکہ وہ اپنا نام صاف کرنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نسل کشی کے الزامات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔"

جمعرات-29 جمادى الآخر 1445ہجری، 11 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16480]



واشنگٹن اور اتحادی ممالک حوثیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر اپنے "غیر قانونی حملے" بند کریں

ایک حوثی شخص حدیدہ کے ساحل کے قریب بحیرہ احمر میں کارگو جہاز "گیلیکسی لیڈر" پر قبضے کے دوران جہاز کے عرشے پر کھڑا ہے (ای پی اے)
ایک حوثی شخص حدیدہ کے ساحل کے قریب بحیرہ احمر میں کارگو جہاز "گیلیکسی لیڈر" پر قبضے کے دوران جہاز کے عرشے پر کھڑا ہے (ای پی اے)
TT

واشنگٹن اور اتحادی ممالک حوثیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر اپنے "غیر قانونی حملے" بند کریں

ایک حوثی شخص حدیدہ کے ساحل کے قریب بحیرہ احمر میں کارگو جہاز "گیلیکسی لیڈر" پر قبضے کے دوران جہاز کے عرشے پر کھڑا ہے (ای پی اے)
ایک حوثی شخص حدیدہ کے ساحل کے قریب بحیرہ احمر میں کارگو جہاز "گیلیکسی لیڈر" پر قبضے کے دوران جہاز کے عرشے پر کھڑا ہے (ای پی اے)

فرانسیسی پریس ایجنسی" کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ اور 11 اتحادی ممالک نے کل بدھ کے روز حوثی باغیوں پر زور دیا کہ وہ بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر "فوری طور پر اپنے غیر قانونی حملے بند کر دیں"، ورنہ اس کے "نتائج بھگتنے" کے لیے تیار رہیں۔

بین الاقوامی اتحاد نے اپنے بیان میں کہا: "اگر حوثیوں نے زندگیوں، عالمی معیشت اور خطے کی بنیادی آبی گزرگاہوں سے سامان کی آزادانہ نقل و حرکت کو خطرے میں ڈالتے رہے تو انہیں اس کے نتائج کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "جان بوجھ کر سویلین بحری جہازوں اور نیول فورسز کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا کہ "عالمی تجارت کے لیے دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہوں پر تجارتی جہازوں سمیت دیگر بحری جہازوں پر حملے آزادانہ سمندری نقل و حرکت کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔"

بیان میں حوثیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ "ان غیر قانونی حملوں کو فوری طور پر روکیں اور بحری جہازوں کے غیر قانونی زیر حراست عملے کو چھوڑ دیں۔" (...)

جمعرات-22 جمادى الآخر 1445ہجری، 04 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16473]