یمن مین قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حوثی ونگز بڑھا رہے ہیں

جنگ بندی نے ان کو حاصل شدی رقوم اور مراعات کا انکشاف کیا

صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
TT

یمن مین قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حوثی ونگز بڑھا رہے ہیں

صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)

پچھلے اپریل میں یمنی منظر نامے میں غالب آنے والی امید کے برعکس، برسوں سے جاری بحران کے خاتمے اور قیام امن کے لیے معاہدے کے قریب پہنچنے کے بیانات کے دوران حوثی گروپ کے ونگز کے درمیان دشمنی اور تصادم سامنے آیا جو فیصلہ سازی کے ایک واحد مرکز کی عدم موجودگی کے سبب اس راہ میں درپیش کئی مشکلات کو ظاہر کرتا ہے۔

سعودی اور عمانی ثالث صنعا میں حوثی رہنماؤں کے ساتھ جامع امن معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کر رہے تھے، اور یہ مسودہ ثالثوں، حوثی نمائندوں اور حکومتی فریق کے درمیان چھ ماہ کی بات چیت اور ملاقاتوں کا نتیجہ تھا جب کہ یمن سے متعلقہ ممالک کے نمائندوں نے اس کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ اس دوران حوثی گروپ کے معروف رہنما ایک تیز بیان بازی کے ساتھ سامنے آئے، جس کے بعد شرائط اور ترجیحات بدل گئیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت عید الفطر سے قبل معاہدہ طے نہ پانے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔

صنعاء میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر عبداللہ، جنہوں نے انتقامی کارروائی کے خوف سے صرف اپنے پہلے نام سے شناخت ظاہر کرنے کو کہا، کا خیال ہے کہ حوثی ونگز کے درمیان دشمنی بات چیت سے ظاہر ہوئی ہے۔ انہوں نے محمد علی الحوثی کی مثال پیش کی، جو گزشتہ برسوں سے خود کو گروپ کے اندر اعتدال پسند ونگ کے نمائندے کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور اس کے ذریعے انہوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں گورننگ کونسل کی صدارت تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن آخرکار یہی شخص سب سے زیادہ شدت پسند اور امن کی طرف جانے والی کسی بھی کوشش کے خلاف ظاہر ہوا ہے۔(...)



"اسرائیل کے بھاری بم" بیروت پر اڑ رہے ہیں

جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی والدہ کل سرحدی قصبے القنطرہ میں جنازے کے دوران (اے پی)
جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی والدہ کل سرحدی قصبے القنطرہ میں جنازے کے دوران (اے پی)
TT

"اسرائیل کے بھاری بم" بیروت پر اڑ رہے ہیں

جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی والدہ کل سرحدی قصبے القنطرہ میں جنازے کے دوران (اے پی)
جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی والدہ کل سرحدی قصبے القنطرہ میں جنازے کے دوران (اے پی)

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے خبردار کیا ہے کہ ان کی افواج "حزب اللہ" پر نہ صرف سرحد سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر بلکہ بیروت کی جانب 50 کلومیٹر کے فاصلے تک بھی حملہ کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، لیکن اسرائیل "جنگ نہیں چاہتا۔" انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت لبنان کی فضاؤں پر پرواز کرنے والے فضائیہ کے طیارے دور دراز کے اہداف کے لیے بھاری بم لے جاتے ہیں۔"

خیال رہے کہ گیلنٹ کا یہ انتباہ بڑے پیمانے پر ان اسرائیلی حملوں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں 24 گھنٹوں کے دوران 18 افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جن میں "حزب اللہ" کے 7 جنگجو اور بچوں سمیت 11 عام شہری شامل تھے، ان سلسلہ وار فضائی حملوں میں سے ایک حملے میں شہر النبطیہ کو نشانہ بنایا گیا، جہاں اسرائیل نے "حزب اللہ"کے ایک فوجی قیادت اور اس کے ہمراہ دو عناصر کو ہلاک کیا۔

اسی حملے میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ "بدھ کو رات کے وقت الرضوان یونٹ کے مرکزی کمانڈر علی محمد الدبس کو ان کے نائب حسن ابراہیم عیسیٰ اور ایک اور شخص کے ساتھ ختم کر دیا گیا ہے۔"

دوسری جانب، "حزب اللہ" نے کل جمعرات کی شام اعلان کیا کہ اس نے "النبطیہ اور الصوانہ میں قتل عام کا یہ ابتدائی ردعمل" دیا ہے، خیال رہے کہ اس کے جنگجوؤں نے "کریات شمونہ" نامی اسرائیلی آبادی پر درجنوں کاتیوشا راکٹوں سے حملہ کیا تھا۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]