یمن مین قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حوثی ونگز بڑھا رہے ہیں

جنگ بندی نے ان کو حاصل شدی رقوم اور مراعات کا انکشاف کیا

صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
TT

یمن مین قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حوثی ونگز بڑھا رہے ہیں

صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)
صنعا میں ایک حوثی بندوق بردار قبائلیوں کے اجتماع کو دیکھ رہا ہے (ای پی اے)

پچھلے اپریل میں یمنی منظر نامے میں غالب آنے والی امید کے برعکس، برسوں سے جاری بحران کے خاتمے اور قیام امن کے لیے معاہدے کے قریب پہنچنے کے بیانات کے دوران حوثی گروپ کے ونگز کے درمیان دشمنی اور تصادم سامنے آیا جو فیصلہ سازی کے ایک واحد مرکز کی عدم موجودگی کے سبب اس راہ میں درپیش کئی مشکلات کو ظاہر کرتا ہے۔

سعودی اور عمانی ثالث صنعا میں حوثی رہنماؤں کے ساتھ جامع امن معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کر رہے تھے، اور یہ مسودہ ثالثوں، حوثی نمائندوں اور حکومتی فریق کے درمیان چھ ماہ کی بات چیت اور ملاقاتوں کا نتیجہ تھا جب کہ یمن سے متعلقہ ممالک کے نمائندوں نے اس کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ اس دوران حوثی گروپ کے معروف رہنما ایک تیز بیان بازی کے ساتھ سامنے آئے، جس کے بعد شرائط اور ترجیحات بدل گئیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت عید الفطر سے قبل معاہدہ طے نہ پانے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔

صنعاء میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر عبداللہ، جنہوں نے انتقامی کارروائی کے خوف سے صرف اپنے پہلے نام سے شناخت ظاہر کرنے کو کہا، کا خیال ہے کہ حوثی ونگز کے درمیان دشمنی بات چیت سے ظاہر ہوئی ہے۔ انہوں نے محمد علی الحوثی کی مثال پیش کی، جو گزشتہ برسوں سے خود کو گروپ کے اندر اعتدال پسند ونگ کے نمائندے کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور اس کے ذریعے انہوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں گورننگ کونسل کی صدارت تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن آخرکار یہی شخص سب سے زیادہ شدت پسند اور امن کی طرف جانے والی کسی بھی کوشش کے خلاف ظاہر ہوا ہے۔(...)



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]