الاسد نے عون کا تختہ الٹنے کی شرط اور جعجع کو اس سے فائدہ نہ اٹھانے دینے کو مغربی ٹاسک قرار دیا: بویز

فارس بویز "الشرق الاوسط" سے گفتگو کرتے ہوئے (الشرق الاوسط)
فارس بویز "الشرق الاوسط" سے گفتگو کرتے ہوئے (الشرق الاوسط)
TT

الاسد نے عون کا تختہ الٹنے کی شرط اور جعجع کو اس سے فائدہ نہ اٹھانے دینے کو مغربی ٹاسک قرار دیا: بویز

فارس بویز "الشرق الاوسط" سے گفتگو کرتے ہوئے (الشرق الاوسط)
فارس بویز "الشرق الاوسط" سے گفتگو کرتے ہوئے (الشرق الاوسط)

کبھی کبھی ایک جملہ سیاست دان کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے نمائندے الیاس الہراوی کو ٹیلی ویژن انٹرویو کے لیے مدعو کیا گیا تو میرونائٹ سیاست دانوں کی طرح وہ صدارت کے خواب میں مبتلا تھے۔ انہوں نے اپنے بہنوئی فارس بویز سے مشورہ کیا اور اس نے انہیں ایک ایسے جملے کے ذریعے مشورہ دیا جس نے صدر حافظ الاسد کو روک دیا۔

ان دنوں شامی صدر لبنان کے لیے الجبل کے علاقے سے باہر نئے صدر کی تلاش میں تھے تاکہ بشیر الجمیل کے عروج کے ساتھ الیاس سرکیس کا تجربہ ان کے ساتھ نہ دہرایا جائے۔ جب کہ وزیر خارجہ فواد پطرس اور لبنانی فوج میں انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جونی عبدہ کے زیر اثر سرکیس کا تجربہ وقوع پذیر ہوا۔ الہراوی نے ایک جملہ کہا اور اس کے سبب انہیں بیروت کے مشرقی حصے میں واقع اپنے گھر کو چھوڑنے اور زحلہ میں اپنے زیر قبضہ گھر واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ لبنان میں شامی انٹیلی جنس اہلکار میجر جنرل غازی کنعان نے الاسد کی طرف سے وعدہ سننے سے پہلے یہ کہہ کر ان کا استقبال کیا: "خوش آمدید جناب صدر"۔ نائبین پارلیمنٹ اپنے اجلاس کے بعد طائف سے واپس آئے تو الہراوی کے خواب کو اس وقت دھچکا لگا جب ایک سمجھوتے کے تحت رینیہ معوض کو بطور صدر منتخب کرنا طے پا گیا۔

قسمت کی بات ہے کہ معوض کو جلد ہی قتل کر دیا گیا اور الہراوی صدر منتخب ہوگئے، لیکن صدارتی محل اس وقت میشال عون نامی ایک بدتمیز جرنیل کے قبضے میں تھا، جو صدارتی محل سے اس وقت تک نہیں گئے جب تک کہ فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں وہاں سے نہیں نکالا گیا۔

سابق وزیر خارجہ فارس بویز نے الہراوی کے انتخاب کی کہانی سنائی۔ ان کا کہنا ہے کہ الاسد نے عون کی برطرفی کی شرط اور "لبنانی افواج" کے سربراہ سمیر جعجع کو عیسائی علاقوں میں عون کے اثر و رسوخ کا وارث بننے میں کامیاب نہ ہونے دینے کو مغربی ٹاسک سے مشروط کیا۔(...)

منگل-07 محرم الحرام 1445ہجری، 25 جولائی 2023، شمارہ نمبر[16310]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]