تنقید کے باوجود بغداد کی سڑکوں پرایرانی کاروں کی بھرمار

نئی ایرانی کاریں عراق جاتے ہوئے (عصر ایران)
نئی ایرانی کاریں عراق جاتے ہوئے (عصر ایران)
TT

تنقید کے باوجود بغداد کی سڑکوں پرایرانی کاروں کی بھرمار

نئی ایرانی کاریں عراق جاتے ہوئے (عصر ایران)
نئی ایرانی کاریں عراق جاتے ہوئے (عصر ایران)

ایرانی ساختہ کاروں کی کوالٹی کے معیار میں کمی اور ان کی کارکردگی پر بار بار تنقید کی وجہ سے ان کو درآمد نہ کرنے کے عراقی فیصلے کے باوجود، کوئی بھی شخص انہیں ذرہ برابر کوشش کیے بنا عراق کی سڑکوں پر گھومتی  ان کاروں کو تلاش کر سکتا ہیں۔

ایرانی کاروں کی سستی قیمت بہت سے بے روزگار افراد کو اس کا مالک بننے اور اسے بطور ٹیکسی کے استعمال کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

بغداد میں ایک ٹیکسی ڈرائیور احمد ہادی (28 سالہ) کہتے ہیں: "بغداد اور دیگر گورنریٹوں میں زیادہ تر ٹیکسی ڈرائیور ایرانی کاروں کے ذریعے کام کرتے ہیں، حالانکہ ان میں حفاظت و سلامتی کے معیارات کا فقدان ہے، کیونکہ ان کی قیمتیں دوسری مہنگی کاروں کے مقابلے میں سستی ہیں۔"

وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کاروں کی خریداری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو کاریں سڑکوں پر بہت زیادہ چلتی ہیں وہ مختلف خرابیوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور ایرانی کاروں کے اسپئر پارٹس بھی سستے ہیں، "یہاں تک کہ ان کی دیکھ بھال بھی دوسری کاروں کے بہ نسبت بہت سستی ہے۔"

ایرانی کار کی قیمت اس کی حالت اور صلاحیت کے مطابق دو ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے، جبکہ عراقی مارکیٹ میں درمیانی صلاحیت والی چینی یا کورین کار کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے جو اس کی صلاحیتوں اور ماڈل کے اعتبار سے بڑھتی جاتی ہے۔ (...)

منگل-14محرم الحرام 1445ہجری، 01 اگست 2023، شمارہ نمبر[16317]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]