اسرائیل کو چاہیے کہ وہ جنگ کو وسعت نہ دے: لبنانی وزیر خارجہ کا "الشرق الاوسط" کو بیان

انہوں نے "جرات مندانہ" عرب موقفوں کے ساتھ ساتھ 1949 کے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر زور دیا

لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب واشنگٹن میں "الشرق الاوسط" کے ساتھ بات چیت کے دوران (الشرق الاوسط)
لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب واشنگٹن میں "الشرق الاوسط" کے ساتھ بات چیت کے دوران (الشرق الاوسط)
TT

اسرائیل کو چاہیے کہ وہ جنگ کو وسعت نہ دے: لبنانی وزیر خارجہ کا "الشرق الاوسط" کو بیان

لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب واشنگٹن میں "الشرق الاوسط" کے ساتھ بات چیت کے دوران (الشرق الاوسط)
لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب واشنگٹن میں "الشرق الاوسط" کے ساتھ بات چیت کے دوران (الشرق الاوسط)

لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب کا خیال ہے کہ اسرائیل کو تحریک "حماس" کے ساتھ غزہ اور اس کے اطراف میں جنگ ​​کو وسعت نہیں دینی چاہیے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کی صورتحال کو "دھماکے" سے تعبیر کرتے ہوئے اسے "خطرناک" کہا اور اسے اسرائیل کے "تکبر" اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کی "مستقل جارحیت" قرار دیا۔

بوحبیب نے "حزب اللہ" کی جانب سے اتوار کی صبح شعبا فارمز میں اسرائیلی ٹھکانوں پر حملے کا اعلان کرنے سے قبل واشنگٹن میں "الشرق الاوسط" کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ لبنانی حکومت کے ساتھ ایک وعدہ کیا گیا ہے کہ "حزب اللہ اس وقت تک غزہ جنگ میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی جب تک کہ اسرائیل لبنان کو ہراساں نہ کرے۔"

انہوں نے غزہ کی پٹی کی صورتحال کو "دھماکے" سے تعبیر کرتے ہوئے اسے "خطرناک" قرار دیا اور اس کی وجہ اسرائیل کے "تکبر" اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کی "مستقل جارحیت" قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالیہ پیشرفت پر لبنان کا موقف "جرات مندانہ" عرب موقفوں کی موافقت کرتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ "حزب اللہ ایک علاقائی مسئلہ ہے، لبنان کا مسئلہ نہیں کہ جسے لبنانی حکومت حل کر سکتی ہے۔"

بوحبیب نے اسرائیل کے ساتھ لبنانی سرحد کے بارے میں "وضاحت" کو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرحدیں 1923 میں کھینچی گئی تھیں جو 1949 کے جنگ بندی کے معاہدے میں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت "بلیو لائن کو سرحد نہیں مانتی"۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے چیف انرجی ایڈوائزر آموس ہاکسٹین کی جانب سے زمینی سرحدوں پر اتفاق رائے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بعد ہے، جب کہ حالیہ جنگ کے خاتمے تک سمندری سرحدوں پر اتفاق رائے کی کوششیں "معلق" ہیں۔

پیر-24 ربیع الاول 1445ہجری، 09 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16386]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]