تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے علاقے میں دو ریاستی حل کے بغیر امن و استحکام ممکن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ فلسطین - اسرائیل تنازعہ کا عملی طور پر حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
رائٹر محمد الیحییٰ نے "واشنگٹن پوسٹ" اخبار کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ تحریک "حماس" اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ ہفتے کی صبح چھڑنے والی جنگ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری فلسطین-اسرائیل تنازعہ کے حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا: "ہمارے پاس آگے بڑھنے کے دو راستے ہیں، پہلا راستہ تنازعہ کو گہرا کرنا تاکہ اسرائیل کو نقشے سے مکمل طور پر مٹانے کے خیال پر عمل کیا جائے، یہ وہ راستہ ہے جسے ایران ترجیح دیتا ہے اور تحریک "حماس" کی طرف سے اسرائیل کے اندر معصوم شہریوں کے خلاف شروع کیے گئے بے مثال حملوں کی حمایت کرتا ہے، یہ ایران کے مفاد میں ہے، کیونکہ یہ تنازع کے دونوں فریقوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دینے میں معاون ہے۔"
الیحییٰ نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: "جہاں تک دوسرے راستے کا تعلق ہے، اس کا مقصد خطے کے لوگوں کے درمیان اتفاق رائے کی بنیاد پر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ اور سعودی عرب نے دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل اس طریقہ کار کی تجویز پیش کی تھی جب اس کی سخت سفارتی اور سیاسی کوششوں کا پھل عرب امن اقدام کی صورت میں حاصل ہوا اور اس کا اعلان 2002 میں بیروت میں عرب سربراہی اجلاس کے دوران کیا گیا۔ جس میں 1967 کی سرحدوں پر مبنی فلسطینی ریاست کے قیام سمیت متعدد رعایتوں کے بدلے میں اسرائیل کی علاقائی و بین الاقوامی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے اور اس کی سیکورٹی کی ضمانتوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔"
انہوں نے وضاحت کی کہ "اس اقدام کو اکیس سال گزر جانے کے بعد اب زمینی حقائق اور کچھ شرائط، جیسے کہ 1967 کی سرحدوں پر واپس جانا، پر عمل پیرا ہونا آج قدرے مشکل لگتا ہے۔ لیکن سعودی حکام کو اب بھی یقین ہے کہ یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جہاں سے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات شروع کیے جا سکتے ہیں۔" انہوں نے نشاندہی کی کہ "حتمی طور پر منصفانہ حل تک پہنچنا اگرچہ آسان نہیں ہے، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔" (...)
منگل-25 ربیع الاول 1445ہجری، 10 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16387]