"حزب اللہ" کی ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ

جو کہ اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں کے دوران ہے جو ابھی تک "محدود" ہیں

جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں سے ہلاک ہونے والے "حزب اللہ" کے ایک جنگجو کا جنازہ (رائٹرز)
جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں سے ہلاک ہونے والے "حزب اللہ" کے ایک جنگجو کا جنازہ (رائٹرز)
TT

"حزب اللہ" کی ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ

جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں سے ہلاک ہونے والے "حزب اللہ" کے ایک جنگجو کا جنازہ (رائٹرز)
جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں سے ہلاک ہونے والے "حزب اللہ" کے ایک جنگجو کا جنازہ (رائٹرز)

7 اکتوبر کو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے "حزب اللہ" کے جنگجوؤں کی تعداد 50 تقریباً تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ یہ تعداد جنوبی سرحد پر سیکورٹی کی صورتحال کے حوالے سے زیادہ تصور کی جارہی ہے کیونکہ ابھی تک دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپیں محدود پیمانے پر ہیں۔

"حزب اللہ" کے جنگجوؤں کی شائع ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق نئی نسل سے ہے اور ان کی عمریں بیس سال سے زیادہ نہیں ہیں، چنانچہ وہ اس طرح اپنے پہلے فوجی تجربے سے گزر رہے ہیں اور وہ جنگجوؤں کی نسل سے نہیں بھی ہیں جنہوں نے شام کی لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔

مشرق وسطیٰ اور خلیجی مرکز برائے عسکری تجزیہ کے سربراہ ریاض قہوجی نے "الشرق الاوسط" کو بتایا: "یہ واضح ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی میں لڑنے والے نوجوان ہیں اور انہیں لڑائی کا تجربہ نہیں ہے۔" انہوں نے نشاندہی کی کہ "اگر ہم یہ اعتبار کر لیں کہ انہوں نے 18 سال کی عمر میں تربیت شروع کی تھی، تب بھی 23 سال یا اس سے کم عمر کے تمام افراد نے شام کی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔"

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہلاک ہونے والے ان جنگجوؤں کے بارے میں "حزب اللہ" کی طرف سے جاری کردہ تعزیتی بیانات میں یہ بات نمایاں ہے کہ اس نے ان کی عمروں کا اعلان نہیں کیا، جو کہ اس کا معمول ہے اور جیسا اس نے جولائی 2006 کی جنگ میں کیا تھا۔

اسی طرح ایک سیاسی تجزیہ کار علی الامین کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کا تجربہ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ دریں اثنا انہوں نے نشاندہی کی کہ عموماً جنگوں میں لڑنے والوں کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے پہلے فوجی تجربے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔(...)

جمعہ-12 ربیع الثاني 1445ہجری، 27 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16404]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]