اردن نے کل پیر کے روز کہا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر شدید بمباری اور حملوں کے دوران فوجی اور شہری اہداف میں فرق نہ کرنے کا جواب دینے کے لیے ان کے پاس تمام آپشنز کھلے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" کے مطابق وزیراعظم بشر الخصاونہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ اردن مزید کیا اقدامات کرے گا، جیسا کہ 7 اکتوبر کو تحریک "حماس" کا سرحد پار سے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کی جانے والی بمباری کے خلاف اردن نے چند روز قبل اسرائیل سے اپنے سفیر کو احتجاجاً واپس بلا لیا تھا۔ جب کہ اردن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ حماس کے حملے کے فوراً بعد عمان چھوڑ کر جانے والے اسرائیلی سفیر کو اپنی ذمہ داریاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے ابھی واپس آنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا، اور کہا کہ وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔
الخصاونہ، جن کے ملک نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا، نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اردن کے پاس تمام آپشنز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے گنجان آباد غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ محاصرہ اس کے دفاع کے لیے نہیں ہے جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں میں سویلین اور فوجی اہداف میں فرق نہیں کیا جاتا اور یہاں تک کہ یہ حملے پرامن علاقوں اور ایمبولینس تک پھیلے ہوئے ہیں۔
جب کہ اسرائیل نے گنجان آباد علاقوں میں شہری اہداف کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی تردید کی اور کہا کہ حماس شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے، ہسپتالوں کے نیچے سرنگیں کھودتی ہے اور اپنے جنگجوؤں کو لے جانے کے لیے ایمبولینس کا استعمال کرتی ہے۔ (...)
منگل-23 ربیع الثاني 1445ہجری، 07 نومبر 2023، شمارہ نمبر[16415]