گولان میں مسلح گروپوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ: رصدگاہ کا بیان

اسرائیلی فوجی شام کے مقبوضہ علاقے گولان میں (روئٹرز)
اسرائیلی فوجی شام کے مقبوضہ علاقے گولان میں (روئٹرز)
TT

گولان میں مسلح گروپوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ: رصدگاہ کا بیان

اسرائیلی فوجی شام کے مقبوضہ علاقے گولان میں (روئٹرز)
اسرائیلی فوجی شام کے مقبوضہ علاقے گولان میں (روئٹرز)

شام میں انسانی حقوق کی رصدگاہ نے کل پیر کے روز اطلاع دی کہ ایرانی حمایت یافتہ گروپوں نے اسرائیل کے زیر کنٹرول گولان کے علاقے پر میزائل داغے جنہوں نے جنوبی شام کے نوی شہر کے اطراف میں درعا کے دیہی علاقوں میں توپ خانوں سے گولہ باری کرنے والے مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن کسی بھی انسانی جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے شام سے اسرائیل کی طرف آنے والے دشمن کے فضائی ہدف کو روکا اور یہ "عراق میں اسلامی مزاحمت" کے دھڑوں کے اس بیان کے بعد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے گولان میں ایک فوجی ہدف پر حملہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ "عرب ورلڈ نیوز" ایجنسی کے مطابق، گزشتہ جمعہ کے روز بھی اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ شام سے اسرائیل کی طرف دو میزائل داغے گئے اور اس کی افواج نے اس کا جواب دیا۔ جب کہ شامی رصدگاہ نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ لبنانی "حزب اللہ" کے اتحادی گروپوں نے شام کی سرزمین سے گولان کی طرف دو میزائل داغے۔

منگل-20 جمادى الآخر 1445ہجری، 02 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16471]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]