"بغداد حملہ" امریکی موجودگی کے خاتمے کے مطالبات کو تقویت دے رہا ہے

عراقی حکومت "النجباء" کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اتحادیوں کو اس کا "ذمہ دار" ٹھہرا رہی ہے

بغداد میں النجباء ہیڈکوارٹر پر حملے میں نشانہ بننے والی ایک گاڑی کی عراقی سیکیورٹی کی طرف سے نشر کی گئی تصویر
بغداد میں النجباء ہیڈکوارٹر پر حملے میں نشانہ بننے والی ایک گاڑی کی عراقی سیکیورٹی کی طرف سے نشر کی گئی تصویر
TT

"بغداد حملہ" امریکی موجودگی کے خاتمے کے مطالبات کو تقویت دے رہا ہے

بغداد میں النجباء ہیڈکوارٹر پر حملے میں نشانہ بننے والی ایک گاڑی کی عراقی سیکیورٹی کی طرف سے نشر کی گئی تصویر
بغداد میں النجباء ہیڈکوارٹر پر حملے میں نشانہ بننے والی ایک گاڑی کی عراقی سیکیورٹی کی طرف سے نشر کی گئی تصویر

کل جمعرات کے روز عراقی دارالحکومت بغداد میں "النجباء موومنٹ" کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنانے والے حملے کے بعد، بین الاقوامی اتحاد اور امریکی افواج کی سرکاری اور سیاسی سطح پر مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ اس حملے میں اس گروپ کے سپیشل آپریشنز کمانڈر ہلاک ہو گئے ہیں، جن پر واشنگٹن کا الزام تھا کہ وہ عراق اور شام میں ان کے فوجی اڈوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔

ایک امریکی اہلکار نے "روئٹرز" کو بتایا کہ امریکی فوج نے اس حملے میں "ایک ایسی شخصیت کو نشانہ بنایا جو اپنے ملک میں فوجی اڈوں پر حملوں کا ذمہ دار تھا۔"

باخبر ذرائع نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ بغداد میں النجباء کے ہیڈکوارٹر پر ایک ڈرون طیارے نے چار میزائل داغے۔

ذرائع نے بتایا کہ "پہلے تین میزائلوں نے النجباء موومنٹ کے رہنما ابو تقوی السعیدی کے ساتھیوں کے زیر استعمال تین گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔" ذرائع نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: "چوتھے میزائل نے چوتھی بکتر بند گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر السعیدی سوار تھے اور یہ ہیڈ کوارٹر کے اندر النجباء کے دفتر کے ساتھ کھڑی تھی۔"

"الشرق الاوسط" کے ذرائع کے مطابق، ڈرون طیارے نے السعیدی کی گاڑی کا بغداد میں ہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے کا گھنٹوں انتظار کیا، جب کہ خیال کیا جاتا ہے کہ شامی سرزمین سے بغداد تک زمینی راستے سے ان کی واپسی کے سفر کے دوران اس نے ان کی نگرانی کی۔

ملک میں امریکی فوجی موجودگی کے خاتمے کے مطالبات زور پکڑ گئے ہیں، جیسا کہ مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل یحییٰ رسول نے اس  حملے کو "دہشت گردانہ کاروائیوں سے ملتا جلتا حملہ" قرار دیا اور اس حملے کا تمام تر ذمہ دارا بین الاقوامی اتحاد کو ٹھہرایا۔

میجر جنرل یحییٰ رسول نے ایک پریس بیان میں کہا: "یہ صریح حملہ، جس میں ڈرون طیارے کے ذریعے بغداد میں ایک سیکیورٹی ہیڈ کوارٹر کو نشانہ گیا اور اس دوران جانی نقصان ہوا، عراقی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی شمار ہوتا ہے، جسے یکسر مسترد کیا جاتا ہے۔" (...)

جمعہ-23 جمادى الآخر 1445ہجری، 05 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16474]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]