"لندنستان"... "انتہا پسندوں کے ساتھ مکالمے" پر برطانوی تنازع کی کہانی

عمر بکری، ابو حمزہ المصری کے ہمراہ، ایک بنیاد پرست اسلامی گروپ کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کر رہے ہیں۔ (گیٹی امیجز)
عمر بکری، ابو حمزہ المصری کے ہمراہ، ایک بنیاد پرست اسلامی گروپ کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کر رہے ہیں۔ (گیٹی امیجز)
TT

"لندنستان"... "انتہا پسندوں کے ساتھ مکالمے" پر برطانوی تنازع کی کہانی

عمر بکری، ابو حمزہ المصری کے ہمراہ، ایک بنیاد پرست اسلامی گروپ کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کر رہے ہیں۔ (گیٹی امیجز)
عمر بکری، ابو حمزہ المصری کے ہمراہ، ایک بنیاد پرست اسلامی گروپ کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کر رہے ہیں۔ (گیٹی امیجز)

تصویر میں موجود یہ دو افراد گذشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں کئی سالوں تک برطانوی دارالحکومت کو اسلامی عسکریت پسندوں کے گڑھ میں تبدیل کرنے کی علامت تصور کیے جاتے تھے۔ ان میں پہلا (دائیں جانب) ابو حمزہ المصری، دہشت گردی کے جرم میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔

جب کہ دوسرا شام سے تعلق رکھنے والا عمر بکری بھی دہشت گردی کے الزام میں کئی سالوں سے لبنان میں قید تھا جسے گزشتہ مارچ میں جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ دونوں خود کو سلاخوں کے پیچھے پاتے، انہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر تقریباً دو دہائیوں تک ایک ایسا روپ دھارا جسے ناقدین "لندنستان" کہتے ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو بحث کریں گے کہ یہ معاملہ مکمل طور پر درست نہیں، کیونکہ درحقیقت لندن مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان بقائے باہمی کا ایک کامیاب برطانوی تجربہ ہے۔ لیکن جو بات یقینی طور پر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی دارالحکومت پچھلی صدی میں نوے کی دہائی سے ایک ایسے میدان میں تبدیل ہو گیا جہاں وسیع پیمانے پر سیاسی اسلامی فکر کے حامی اور خود کو "جہادی" کہنے والے گروہ سرگرم ہوگئے تھے، لیکن پہلے عرب ممالک میں اور پھر مغربی ممالک میں بہت سی حکومتوں نے انہیں دہشت گرد یا انتہا پسند شمار کیا۔

لیکن لندن کیسے "لندنستان" میں تبدیل ہوا؟ کیا برطانوی حکومت اپنی سرزمین پر تشدد پسندی کی جانب ہونےوالی تبدیلی سے آگاہ تھی؟ جیسا کہ کچھ کا خیال ہے کہ کیا یہ اسلام پسندوں کی میزبانی کر رہا تھا تاکہ یہ انہیں مشرق وسطیٰ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بطور "کارڈ" استعمال کر سکے؟ یا کیا اسے اپنے انتہا پسند "مہمانوں" کے خطرے کے بارے میں بہت بعد تک معلوم نہیں تھا، جب تک کہ انہوں نے اس کی سرزمین پر جڑیں پکڑ لیں اور اپنے آبائی ممالک اور مغربی ممالک میں بھی تشدد اور دہشت گردی میں ملوث ہونا شروع کر دیا؟ (...)

منگل-23 ذوالحج 1444 ہجری، 11 جولائی 2023، شمارہ نمبر[16296]



یورپی یونین کے ممالک کا بحیرہ احمر میں فوجی آپریشن پر اتفاق

یورپی بحری مشن اگلے ماہ شروع ہو گا
یورپی بحری مشن اگلے ماہ شروع ہو گا
TT

یورپی یونین کے ممالک کا بحیرہ احمر میں فوجی آپریشن پر اتفاق

یورپی بحری مشن اگلے ماہ شروع ہو گا
یورپی بحری مشن اگلے ماہ شروع ہو گا

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے برسلز میں یونین کے ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے "اصولی طور پر" ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔

سفارتی ذرائع نے بتایا کہ یہ مشن اگلے ماہ شروع ہو گا، جس کا مقصد یمن میں حوثی گروپ کی طرف سے بحیرہ احمر میں بحری نقل و حمل پر شروع کیے گئے حملوں کو ختم کرنا ہے۔ جب کہ موجودہ منصوبوں کے تحت، اس مشن میں یورپی جنگی جہازوں کی تعیناتی اور خطے میں مال بردار بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے ہوائی جہاز کے ابتدائی انتباہی نظام شامل ہیں۔ لیکن یمن میں حوثی ٹھکانوں پر امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے حملوں میں حصہ لینا ابھی منصوبے میں شامل نہیں ہے۔

حکومتی ذرائع نے بتایا کہ جرمنی "ہیسن فریگیٹ" کے ساتھ جوی آپریشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے، بشرطیکہ جرمن ایوان نمائندگان "بنڈسٹاگ" یورپی یونین کے منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد بھی اس کی اجازت دیں۔(...)

منگل-11 رجب 1445ہجری، 23 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16492]