عراقی شہری امجد حمید (39 سالہ) جب دارالحکومت بغداد میں اپنے گھر میں داخل ہوئے تو اپنی دس سالہ بیٹی کے جسم پر شدید مار کے نشان دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس نے یہ الزام اپنی بیوی پر لگانے میں کوئی غلطی نہیں کی، جس سے اس نے حال ہی میں اپنی بیٹی کی ماں سے علیحدگی کے بعد شادی کی تھی، کیونکہ نئی بیوی کو بچے کی بدسلوکی میں اپنی نفرت اور حسد کے جذبات کو تسکین دینے کا ایک ذریعہ مل گیا تھا۔
دو بچوں کے والد حمید نے عرب ورلڈ نیوز ایجنسی کو بتایا: "اپنی بیوی سے علیحدگی کے بعد میں نے دو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دوسری شادی کر لی اور میں نے اسے کہا کہ وہ ان بچوں کے معاملات کو سنبھالے اور ان سے لاپرواہی نہ کرے اور اس کے بدلے میں اسے ہر وہ چیز فراہم کروں گا جس کی اسے ضرورت ہوگی کیونکہ میرے حالات اچھے ہیں۔"
اس نے بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا: "تھوڑے عرصے کے بعد دونوں بچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات نظر آنے لگے اور جب میں نے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ وہ میری بیٹی سے حسد کرتی ہے، یہاں تک کہ میرے اس سے لگاؤ کی وجہ سے ایک بار تو اسے تقریباً مارنے والی تھی، چنانچہ دوبارہ طلاق ہو گئی۔"
عراق میں تشدد کی ایک اور کہانی، جس سے گزشتہ دنوں سماجی رابطوں کی سائٹس اور میڈیا بھرا پڑا ہے، یہ کہانی 7 سالہ موسی ولاء کی ہے، جسے اس کی سوتیلی ماں نے کئی ماہ تک تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسکی زندگی کا ہی خاتمہ کر دیا تھا۔ (...)
جمعرات-23 محرم الحرام 1445ہجری، 10 اگست 2023، شمارہ نمبر[16326]