سعودی عرب اپنے شہریوں میں بے روزگاری کے ہدف تک پہنچنے کے قریب ہے، جو اس نے "وژن 2030 " میں 7 فیصد مقرر کیا تھا۔ رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح کم ہو کر 8.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جب کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران یہ 9.7 فیصد تھی۔ جو حکومت کی جانب سے مقامی مارکیٹ میں ملازمت کے مواقع فراہم کرکے سعودی مردوں اور خواتین میں بے روزگاری کو ختم کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
"کنگڈم ویژن" کے اہداف کے مطابق، حکومت کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی معاشی شراکت کو بڑھانے کی کوششوں کے نتیجے میں دوسری سہ ماہی میں سعودی خواتین کی بے روزگاری کی شرح میں غیر معمولی کمی ریکارڈ کی گئی جو 15.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ یہ گذشتہ سال 2022 کی دوسری سہ ماہی میں 19.3 فیصد تھی۔
یاد رہے کہ یہ بیانات بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے لیبر مارکیٹ اور ڈیجیٹائزیشن میں سعودی عرب کی جانب سے کی گئی اصلاحات کی تعریف کے وقت میں ہے، جیسا کہ فنڈ کی رہورٹ کے مطابق، یہی دو شعبے ہیں جنہوں نے مملکت میں ہونے والی بڑی تبدیلی کے عمل میں کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "یہ سال مملکت سعودی عرب کے ویژن 2030 کے لیے پرعزم سفر کے وسطی نقطہ اور ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔"
فنڈ نے وضاحت کی کہ 2016 میں اعلی مہارت رکھنے والے سعودیوں کی شرح 32 فیصد تھی جو 2022 میں بڑھ کر 42 فیصد ہوگئی ہے، اسی طرح لیبر مارکیٹ میں سعودی خواتین کا تناسب بھی گزشتہ چار سالوں میں دوگنا ہو کر 37 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو کہ "وژن 2030" کے اہداف سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسری جانب مجموعی ترقی میں ڈیجیٹل سیکٹر کا حصہ 2016 میں 0.2 فیصد تھا جو 2022 میں بڑھ کر 15 فیصد ہو گیا ہے۔ (...)
جمعہ-14 ربیع الاول 1445ہجری، 29 ستمبر 2023، شمارہ نمبر[16376]