دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فتویٰ ۔۔۔ کیا نئی بات ہے؟
مشاری الزایدی
جہادی عمل کے گمان میں اپنے آپ کو خود کش دھماکے سے اڑانے کو حرام قرار دینے کے فتویٰ سے کیا واقعی یہ شیطانی کاروائیاں بند ہو جائیں گی؟
دہشت گرد جماعتوں کے یہ نظریات کئی دلائل اور فقہی مسائل سمیت مختلف نصوص پر منبی ہیں، خواہ یہ نصوص قرآن سے، یا حدیث سے اور یا پھر پرانے اسلاف کے اقوال سے متعلق ہوں تاکہ وہ اپنی ان کاروائیوں کو مطلوبہ دینی لبادے میں لپیٹ سکیں۔
یہ علمائے دین، دینی و نیم دینی اداروں اور "شرعی” لوگوں؛ جیسا کے دہشت گرد جماعتیں اپنے ان کے لئے یہ یہ اصطلاح استعمال کرتی ہیں، ان کے مابین ایک تنازعہ کا میدان ہے۔ (۔۔۔)
مراد یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مصر کے دینی ادارے الازھر اور سعودی عرب کے بڑے علماء کی کمیٹی نے "القاعدہ” اور "داعش” کے نیٹ ورک اور ان جیسی دیگر دین کے نام پر مجرمانہ جماعتوں کے خلاف بہت سے فتاویٰ جات جاری کئے، لیکن ان سے مطلوبہ سیر حاصل "کامیابی” نہ مل سکی۔
تو کیا اب مفتیان کرام کو فتویٰ دینے سے روک دیا جائے اور انہیں (دہشت گردوں کو) ان کا کام جاری رکھنے دیں؟
یقینا نہیں! ۔۔۔ سب سے پہلے تو یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور اپنے آپ کو برئ الذمہ کرنا ہے، پھر دوسرے نمبر پر یہ ان قاتلوں فکری اور معنوی جدوجہد کے سامنے ایک ڈھال ہے۔
چند روز پہلے پاکستان میں خود کش دھماکوں کی حرمت پر 1800 سے زائد پاکستانی علمائے دین کے جاری کردہ فتووں پر مشتمل ایک کتاب کی سرکاری سطح پر تقریب منعقد کی گئی۔ اس کتاب کو پاکستانی حکومت کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ پاکستانی صدر ممنون حسین نے اس کتاب اور فتویٰ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: "یہ فتوی اعتدال پسند مسلم معاشرے کے استحکام کے لئے مضبوط بنیاد ہے”۔ (۔۔۔)
یہ کتاب پاکستان کی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں مرتب کی گئی ہے اور پاکستانی صدر اسلام آباد میں اس کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کریں گے۔ کیا اس فتویٰ کی وجہ سے "حقانی” نیٹ ورک، "پاکستانی طالبان”، "افغان طالبان” اور "لشکر طیبہ” وغیرہ کے جنگجو لوگ عوام کے خلاف خود کش دھماکوں سے باز آ جائیں گے؟
تو کیا خود کش دھماکہ یا اس جیسی کاروائی ہی مسٔلہ ہے یا پھر وہ سوچ جس کے تحت یہ خود کش حملہ آور نوجوان پل کر جوان ہوا؟
یعنی درحقیقت مذہبی گفتگو و خطابات کا مسٔلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ یہ وہ "مفہوم” ہیں جو کچھ مساجد، اسکولوں اور گھریلوں تقریبات میں پنپتے ہیں اور ان سے جہاد، حاکمیت اور خلافت کے بارے میں زہر آلود سیاہی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہنوں میں انڈیلی جاتی ہیں۔۔۔ یہ اصل بیماری ہے۔
انتہا پسندی کو روکنے کے لئے ہر طرح کی کوشش قابل تحسین اور بلا شک داد کے لائق ہے، لیکن ہمیں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔۔۔ ہم بیماری کے گرد گھوم ضرور رہے ہیں۔۔۔ لیکن ابھی بیماری کو پکڑ نہیں پائے!