دوستوں کی عاجزی کے ساتھ دمشق کا معاشی بحران دگرگوں

دمشق کی ایک سرک پر شامیوں کو دیکھا جا سکتا ہے
دمشق – لندن: «الشرق الاوسط »
دمشق کے اندر بہت سارے لوگوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ ان کی معاشی زندگی کبھی بھی اچھی نہیں ہو سکتی ہے بلکہ گزشتہ سالوں میں جنگ کی شدت کے دوران جو حالت تھی اس سے بھی بری ہوگی کیونکہ شامی انتظامیہ کے دوست عاجز آ چکے ہیں اور اس میں اشارہ ایران اور روس کی طرف ہے۔
انتظامیہ کے قبضہ والے علاقہ میں دو ماہ سے زائد کی مدت سے گھر کے گیس کی حصولیابی میں زبردت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آگ کے لئے لکڑی بھی نہیں مل رہی ہیں اور گھنٹوں بجلی نہیں ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلہ میں شامی لیرہ کی اہمیت بہت زیادہ کم ہوئی ہے اور قیمتوں میں مزید زیادتی ہونے کی وجہ سے زندگی کے تمام راستے تنگ ہیں اور زندگی بالکل دوبھر ہو چکی ہے جبکہ بحران کے شروع میں حکومت نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور چند دنوں میں وہ حل ہو جائیں گے لیکن صورتحال میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ بد سے بد تر ہو چکی ہے۔
ایک معاشی ماہر نے کہا کہ شام کے اندر درمیانی طبقہ کی معیشت بالکل گر چکی ہے اور ان کی تعداد ساٹھ فیصد تھی جبکہ ابھی ان کی تعداد پندرہ فیصد ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علاقائی ریسرچ سینٹروں کے اندازے کے مطابق اس بات کا علم ہوا ہے کہ غریبوں کی فیصد اسی تک پہنچ چکی ہے اور جہاں تک پانچ فیصد کی بات ہے تو یہ جنگ کے وہ مالدار لوگ ہیں جنہوں نے جنگ کے سالوں کے دوران شامی معیشت کے گلہ کو گھونٹ دیا ہے۔
اتوار 05 جمادی الآخر 1440 ہجری – 10 فروری 2019ء – شمارہ نمبر [14684]