جدہ کا نیا کیفے ... کافی، آرٹ اور ثقافت

جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
TT

جدہ کا نیا کیفے ... کافی، آرٹ اور ثقافت

جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ کے کیفوں کی ایک لمبی تاریخ ہے کیونکہ وہ مسافروں کے لئے ایک پرانا اسٹیشن اور ہمیشہ آرام کرنے اور دوستوں سے ملنے کی جگہ ہوا کرتا تھا اور سعودی عرب کے "ریڈ سی دلہن" اور دیگر شہروں پر غیر ملکی زنجیروں کے حملے کے باوجود جدہ میں کیفے کو ابھی بھی مقبولیت اور برتری حاصل ہے لیکن اب "کافی شاپس" کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہے جس میں کافی، آرٹ، گلوکاری اور ثقافت کا ایک سنگم نظر آتا ہے۔
نوجوان اور خوشگوار ماحول میں شام گزارنے کے لئے الشرق الاوسط کی ٹیم نے ان میں سے ایک نئے کیفے کا دورہ کیا اور جب یہ ٹیم بوہو کیفے پہنچتی ہے تو باہر میں ہلکی سی بھیڑ نظر آتی ہے جہاں متعدد نوجوان مرد اور خواتین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور پرجوش انداز میں راحت وآرام کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں اور جب یہ ٹیم اندر پہنچی تو وہاں دلوں کو موہنے والے گانے بج رہے تھے اور ایک کونے میں چھوٹی سے جماعت مشہور گانا سننے میں مشغول تھی اور یہی اس کیفے کی مکمل داستان ہے۔(۔۔۔)
بدھ 25 جمادی الآخر 1441 ہجرى - 19 فروری 2020ء شماره نمبر [15058]


بڑے پیمانے پر تباہی کا ایک ہتھیار بھوک ہے: جان زیگلر

جان زیگلر
جان زیگلر
TT

بڑے پیمانے پر تباہی کا ایک ہتھیار بھوک ہے: جان زیگلر

جان زیگلر
جان زیگلر

1934ء میں پیدا ہونے والے جان زیگلر کا شمار ہمارے عہد کے باضمیر مفکروں میں ہوتا ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں ایک فلسفی، سیاسی عہدیدار اور سوئس نائب ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک بڑے عالمی ذمہ دار بھی ہیں کیونکہ آپ آٹھ سال (2000-2008) تک غذائیت پر اقوام متحدہ کے عالمی نمائندے رہے۔ اب آپ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی مشاورتی کمیٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ ان کی کئی قابل ذکر کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، جن میں "سرمایہ داری کی سیاہ کتاب"، "دنیا کی بھوک نے میرے بیٹے کو سمجھا دیا"، "دنیا کے نئے آقا اور ان کا مقابلہ کرنے والے"، "شرم کی سلطنت" (یعنی مغربی سرمایہ داری کی سلطنت اور کثیر القومی و بین البراعظمی کمپنیاں جو جنوب کے لوگوں کو بھوکا مارتی ہیں اور ان کے ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ڈالتی ہیں اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں)، "انسان کا خوراک کا حق"، "دوسرے مغرب سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟"، "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار: دنیا میں بھوک کا جغرافیہ" اور پھر "میر چھوٹی بیٹی کو سرمایہ داری کی وضاحت" وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ بنیادی کتب کا مجموعہ ہیں جو وحشیانہ سرمایہ داری کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں اور مجرمانہ بھوک کے نقشے کو واضح کرتی ہیں جو اس وقت دنیا کو تباہ کر رہی ہے۔ (...)

جمعرات-01 صفر 1445ہجری، 17 اگست 2023، شمارہ نمبر[16333]