خطے کے تعلقات اور نئے امور پر تبادلۂ خیال کرنے کے لئے سعودی اور جزائر کے درمیان سربراہی اجلاسhttps://urdu.aawsat.com/home/article/2153821/%D8%AE%D8%B7%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D9%84%DB%82-%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%B2%D8%A7%D8%A6%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86
خطے کے تعلقات اور نئے امور پر تبادلۂ خیال کرنے کے لئے سعودی اور جزائر کے درمیان سربراہی اجلاس
گزشتہ روز ریاض میں بات چیت کے دوران خادم حرمین شریفین اور جزائر کے صدر کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے گزشتہ روز ریاض میں جزائر کے صدر عبد المجيد تبون کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا ہے جس میں ان دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے مابین قائم تعلقات کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں ان کی ترقی کے سلسلہ میں تبادلۂ خیال کیا ہے اور اس کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی واقعات کی پیشرفت کے بارے میں بھی گفت وشنید کی ہے اور یہ سربراہی اجلاس ریاض میں رہائش گاہ پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور جزائر کے صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں فریقین کے مابین دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کے پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد منعقد ہوا ہے۔ جزائر کے ایک سفارتکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر تبون نے سعودی قیادت سے ریاض اور جزائر کے مابین مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے طریقوں کے سلسلہ میں تبادلۂ خیال کیا ہے اور انہوں نے دونوں ممالک کے مابین تاریخی برادرانہ تعلقات کی تعریف بھی کی ہے۔ جزائر کے سفارت کار نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنے مقاصد کو مکمل طور پر حاصل کرنے والا یہ دورہ مشترکہ اہتمام والے مسائل کے سلسلہ میں مشورہ کرنے اور ہم آہنگی کے دائرۂ کار میں ہوا ہے۔ سعودی عرب میں جزائر کے سفیر احمد عبد الصدوق نے الشرق الاوسط" کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط اور جامع ہیں اور اس کی جڑیں نومبر 1954 کے انقلاب تک پھیلی ہوئی ہیں کیونکہ سعودی عرب اس شاندار انقلاب کی حمایت میں ہمارے ساتھ تھا اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے جزائر کے حالیہ دورہ کی وجہ سے ان تعلقات کو مضبوطی اور قابل اطمینان فروغ ملا ہے۔(۔۔۔) جمعہ 04رجب المرجب 1441 ہجرى - 28 فروری 2020ء شماره نمبر [15067]
مالی کا الجزائر پر دشمنانہ کاروائیاں کرنے اور اس کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزامhttps://urdu.aawsat.com/%D8%AE%D8%A8%D8%B1%D9%8A%DA%BA/4814066-%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%AC%D8%B2%D8%A7%D8%A6%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%A7%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AF%D8%A7%D8%AE%D9%84%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%A7%D9%85
مالی کا الجزائر پر دشمنانہ کاروائیاں کرنے اور اس کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام
مالی کے فوجی حکمران کرنل عاصیمی گوئٹا (ایکس پلیٹ فارم پر مالی پریذیڈنسی اکاؤنٹ)
کل جمعرات کے روز افریقی ملک مالی کی حکمران عسکری کمیٹی نے الجزائر پر دشمنانہ کاروائیاں کرنے اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔
"روئٹرز" کے مطابق، عسکری کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس نے علیحدگی پسندوں کے ساتھ 2015 کا الجزائر امن معاہدہ فوری طور پر ختم کر دیا ہے۔ الجزائر کی حکومت کے قریبی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ وہ باماکو کے فوجی حکمران کرنل عاصیمی گوئٹا کے روس کی ملیشیا "وگنر" کے ساتھ اتحاد سے پریشان ہے۔ گزشتہ نومبر میں مالی میں ملیشیا کی طرف سے تکنیکی اور لاجسٹک مدد سے شروع کیے گئے ایک اچانک حملے میں مالی کی افواج نے کیدال شہر پر قبضہ کر لیا تھا، جب کہ کیدال، شمال میں ایک الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے والی مسلح اپوزیشن کا ایک اہم گڑھ شمار ہوتا ہے۔
انہی ذرائع کے مطابق، الجزائر اس پیش رفت کو مالی میں تنازعے کے دونوں فریقوں کے مابین 2015 میں اپنی سرزمین پر دستخط کیے گئے "امن معاہدے کی خلاف ورزی" شمار کرتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کے شہروں پر کرنل گوئٹا کی پیش قدمی اور جدید فوجی آلات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی فوجی مہم کے دوران اسے "ویگنر" کے زیر کنٹرول دینے کو بین الاقوامی ثالثی کی کوششوں کو کمزور کرنا شمار کرتا ہے، اور خیال رہے کہ الجزائر اس ثالثی کا سربراہ ہے۔
اس مہینے کے آغاز میں کرنل گوئٹا نے اندرونی تصفیہ کے عمل کے حوالے سے بیانات دیئے، جس سے یہ سمجھا گیا کہ وہ "امن معاہدے" اور ہر طرح کی ثالثی سے دستبردار ہو رہے ہیں۔