اس وقت واشنگٹن اور تہران کے مابین چل رہے بازو کو مروڑنے کے عمل میں توجہ اس کردار کی طرف لوٹ آئی ہے جو یورپی فریق ادا کرسکتی ہے، چاہے وہ تین یورپی پارٹیوں (فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کی سطح پر ہو جس نے 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے، یا یورپی یونین کے خارجہ تعلقات کے عہدیدار جوزپ بوریل کی سطح پر ہو جو اس مشترکہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مقرر تھے جو معاہدے میں طے شدہ ہے اور جو ممبر ممالک کے مابین تنازعات کی جانچ پڑتال کرنے والے ہیں۔
تہران کی طرف سے بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اس جوہری پابندیوں کی طرف واپسی مشروط ہے جس سے امریکہ نکل چکا ہے اور اب واشنگٹن پہلا قدم اٹھائے اور اپنی پابندیاں ختم کرے اور امریکی فریق نے جواب دیا کہ وہ اس معاہدے کی طرف واپس آنا چاہتا ہے لیکن سب سے پہلے تہران اپنی تمام خلاف ورزیوں سے دستبردار ہو اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا بیان پرسو آیا ہے کہ ایران پہلا تنازلی قدم اٹھانے والا ہے۔(۔۔۔)
جمعرات 22 جمادی الآخر 1442 ہجرى – 04 فروری 2021ء شماره نمبر [15409]