لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس بنیاد پر طالبان کی پیشرفت نے افغان نسلی تقسیم کو بیدار کردیا ہے اور سابقہ جنگجوؤں کو شمالی اور وسطی افغانستان کی طرف پشتون اکثریتی اسلام پسند تحریک کی توسیع کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے حامیوں کو متحرک اور مسلح کرنے پر بھی آمادہ کر دیا ہے جہاں آبادی مختلف نسلی مجموعہ میں منقسم ہے جیسے کہ تاجک، ازبک اور ہزارہ نسلیں ہیں اور طالبان کے خلاف ان لوگزں کے ہتھیار اٹھانے کی وجہ سے نسلی تنازعات کے دوبارہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور ملک کے جنوب اور مشرق میں "طالبان" کی پیشرفت سے پشتون پشتون تنازعات کو ہوا دینے کے خدشات بھی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں موجودہ اختیار کا سب سے بڑا مقصد نسلی پشتونوں پر مبنی ہے لیکن یہ سب "طالبان" کے مخالفین ہیں۔(۔۔۔)
اتوار 08 ذی الحجہ 1442 ہجرى – 18 جولائی 2021ء شماره نمبر [15573]