کابل ایئرپورٹ کے مناظر سے دنیا حیران اور واشنگٹن شرمندہ ہے

گزشتہ روز کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر کچھ افغان کو انتظار اور کچھ کو ایک ہوائی جہاز کے اوپر چڑھنے کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) اور دائرہ میں صدارتی محل میں سابق صدر اشرف غنی کے دفتر میں طالبان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے پی)
گزشتہ روز کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر کچھ افغان کو انتظار اور کچھ کو ایک ہوائی جہاز کے اوپر چڑھنے کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) اور دائرہ میں صدارتی محل میں سابق صدر اشرف غنی کے دفتر میں طالبان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے پی)
TT

کابل ایئرپورٹ کے مناظر سے دنیا حیران اور واشنگٹن شرمندہ ہے

گزشتہ روز کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر کچھ افغان کو انتظار اور کچھ کو ایک ہوائی جہاز کے اوپر چڑھنے کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) اور دائرہ میں صدارتی محل میں سابق صدر اشرف غنی کے دفتر میں طالبان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے پی)
گزشتہ روز کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر کچھ افغان کو انتظار اور کچھ کو ایک ہوائی جہاز کے اوپر چڑھنے کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) اور دائرہ میں صدارتی محل میں سابق صدر اشرف غنی کے دفتر میں طالبان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے پی)
اتوار کو افغان دارالحکومت پر قبضہ کرنے والی "طالبان" تحریک سے فرار ہونے کی کوشش میں کابل ہوائی اڈے پر ہزاروں افغان شہریوں کو ایک فوجی جہاز سے لپٹے ہونے کے مناظر نے دنیا بھر کو حیران کر دیا ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ بھی بڑھ گیا ہے جن کو افغانستان سے انخلاء کے عمل کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بائیڈن نے کل رات اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے آنے والے مناظر پریشان کن اور تشویس ناک ہیں لیکن انہوں نے سلطنتوں کے قبرستان کے طور پر بیان کیے جانے والے افغانستان سے انخلاء کے فیصلے کی درستگی کو برقرار رکھا ہے اور انہوں نے زور دیا ہے کہ امریکہ نے افغان فوج کو "طالبان" سے لڑنے کے لیے ہر موقع دیا ہے لیکن افغان سیاسی رہنماؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور ملک سے بھاگ گئے جبکہ افغان فوج نے بھی لڑنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی افواج کو ایسی جنگ میں لڑنا اور مرنا نہیں چاہیے جسے افغان فورسز نے لڑنے سے انکار کر دیا ہے اور اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس تنازعے میں رہ کر اور لڑ کر ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا جو امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے اور انہوں نے اپنے بعد پانچویں صدر کو وراثت کے طور پر اس تنازعہ کو دینے سے انکار کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے صدارت سنبھالی تو ان کے سامنے انتخاب یا تو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل کرنا تھا یا پھر لڑائی میں واپس آنا تھا اور انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ افغانستان میں ان کے ملک کا مشن ریاست کی تعمیر نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور اسے حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی ہے کیونکہ (القاعدہ) کمزور کیا جا چکا ہے اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کو مار دیا گیا ہے۔(۔۔۔)

منگل 08 محرم الحرام 1443 ہجرى – 17 اگست 2021ء شماره نمبر [15603]



"ڈیووس" اپنے فورم کے دنوں میں ایک مضبوط قلعہ

اتوار کو ڈیووس میں یوکرین کے قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک گروپ فوٹو (ای پی اے)
اتوار کو ڈیووس میں یوکرین کے قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک گروپ فوٹو (ای پی اے)
TT

"ڈیووس" اپنے فورم کے دنوں میں ایک مضبوط قلعہ

اتوار کو ڈیووس میں یوکرین کے قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک گروپ فوٹو (ای پی اے)
اتوار کو ڈیووس میں یوکرین کے قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک گروپ فوٹو (ای پی اے)

ہر سال کی طرح "ورلڈ اکنامک فورم" نے اس سال بھی ممالک کی قیادتوں، حکومتوں کے رہنماؤں اور دنیا کے سینکڑوں امیر ترین لوگوں کو سوئس ریزورٹ ڈیووس میں اجلاس کی دعوت دی، جب کہ سیکیورٹی اور تنظیم کے امور سوئس وفاقی حکومت اور مقامی حکومتوں کے ساتھ تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ سوئس حکومت نے اس سال سالانہ اجلاس کو محفوظ بنانے کی اضافی لاگت کا تخمینہ تقریباً 9 ملین سوئس فرانک لگایا، جو کہ 10.5 ملین ڈالر سے زیادہ کے برابر ہے، جب کہ 2022 اور 2024 کے درمیان حکومت کی طرف سے مقرر کردہ سالانہ بجٹ کے مطابق مسلح افواج کی تعیناتی کی لاگت 32 ملین سوئس فرانک ہے جو کہ 37.5 ملین ڈالر کے برابر ہے۔ سوئس حکومت کی ترجمان سوزان میسیکا نے "الشرق الاوسط" کو ایک بیان میں وضاحت کی کہ  سالانہ اجلاس کو محفوظ بنانے کے لیے فورسز کی تعیناتی کی لاگت انہی فورسز کے لیے معمول کی فوجی تربیت کے اخراجات کے برابر ہے۔

ڈیووس میں اور اس کے ارد گرد 5000 فوجی تعینات ہیں، اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں سوئس سیکیورٹی اور پولیس اہلکار مختلف علاقوں میں تعینات ہیں۔(...)

منگل-04 رجب 1445ہجری، 16 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16485]