جھڑپوں کی وجہ سے باشاغا حکومت کو طرابلس چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا

دبیبہ حکومت کی وفادار فورسز کو کل باشاغا حکومت کو طرابلس سے نکالنے میں کامیابی کے بعد فتح کا نشان بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)
دبیبہ حکومت کی وفادار فورسز کو کل باشاغا حکومت کو طرابلس سے نکالنے میں کامیابی کے بعد فتح کا نشان بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)
TT

جھڑپوں کی وجہ سے باشاغا حکومت کو طرابلس چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا

دبیبہ حکومت کی وفادار فورسز کو کل باشاغا حکومت کو طرابلس سے نکالنے میں کامیابی کے بعد فتح کا نشان بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)
دبیبہ حکومت کی وفادار فورسز کو کل باشاغا حکومت کو طرابلس سے نکالنے میں کامیابی کے بعد فتح کا نشان بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)
لیبیا کی "استحکام" حکومت جس کی سربراہی فتحی باشاغا کر رہے ہیں دارالحکومت طرابلس میں داخل ہونے کی اپنی پہلی کوشش میں ناکامی کے بعد اس کے اور عبد الحمید دبیبہ کی سربراہی میں اتحاد حکومت کی وفادار فورسز کے درمیان ہونے والے پرتشدد جھڑپوں کے بعد چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہے۔

"اتحاد" حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا ہے جسے اس نے طرابلس میں دراندازی کی ناکام کوشش کے طور پر بیان کیا ہے اور اس کوشش کو اس کی حریف "استحکام حکومت" نے کل صبح سویرے انجام دا ہے اور جب دبیبہ نے جھڑپوں کا مشاہدہ کرنے والے محلوں کا معائنہ کیا تو ان لوگوں کی ناکامی کی تصدیق کی جنہیں انہوں نے اندھیرے کے چمگادڑ اور جنگ کا مطالبہ کرنے والا قرار دیا ہے اور انہیں دھمکی بھی دی ہے اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ صورتحال پرسکون ہے۔(۔۔۔)

بدھ  16 شوال المعظم  1443 ہجری  - 18   اپریل   2022ء شمارہ نمبر[15877]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]