عبد الحمید الدبیبہ کی قیادت میں عبوری اتحادی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے, جب کہ ایوان نمائندگان کی جانب سے مقرر کردہ نئی متوازی استحکام حکومت کے سربراہ فتحی باشاغا نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے دنوں میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
پرسوں شام فرانسیسی نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں باشاغا نے کہا کہ اگر وہ دستبردار ہوتے تو یہ خونریزی سے بچنے کے لیے ہوتا نہ کہ دارالحکومت طرابلس میں اپنے فرائض سرانجام دینے سے کترارتے ہوئے۔ انہوں نے طرابلس سے 450 کلومیٹر مشرق میں واقع سرت شہر میں اپنے عارضی دفتر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، "طرابلس کے تمام راستے کھلے ہیں،" انہوں نے مزید کہا: "ہمیں دارالحکومت میں داخل ہونے کے لیے کئی مثبت آوازیں اور کالیں موصول ہوئیں ہیں،" جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ مسلح افواج، جن کا انہوں نے نام نہیں لیا، نے اپنی پوزیشنیں اور رائے بدل لی ہیں اور انہیں ہمارے داخلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
الدبیبہ حکومت کو "ہیڈ کوارٹر پر قابض گروہ" کے طور پر بیان کرنے کے بعد باشاغا نے کہا کہ "طرابلس کی حکومت غیر قانونی ہے، اس کا مینڈیٹ ختم ہو چکا ہے اور وہ انتخابات کے انعقاد میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔" اگرچہ اس حکومت نے خانہ جنگی کے منظر نامے کو مسترد کر دیا ہے، تاہم، اس نے اس امکان کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ "مظاہروں اور عوام کے اس مطالبے کی وجہ سے افراتفری پھیلے گی کہ لیبیا میں ایک حکومت ہو، ایک ایسی حکومت جو لیبیا کے لوگوں کو اکٹھا کرنے اور اصلاحات کا عمل شروع کرنے کے قابل ہو۔"
پیر - 12 ذی الحجہ 1443 ہجری - 11 جولائی 2022ء شمارہ نمبر [15931]