صدارتی قیادت کونسل، یا جسے "صدارتی کونسل" کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کونسل کے صدر اور سات نائبین کی حلف برداری کے 100 دن مکمل کر لیے ہیں، جو کہ ریاض کی مشاورت کے نتیجے میں اس تاریخی فیصلے کے بعد ہے کہ گذشتہ سات اہریل سے کونسل کو اقتدار سونپ دیا جائے۔
آج بھی، کونسل سے ان عظیم وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جن کا اعلان اس نے ذمہ داریوں کے آغاز میں کیا تھا، یا کونسل کی قیادت کی تقریروں میں کئے تھے، چاہے یہ عوام سے کیے گئے ہوں یا اس کے اپنے اجلاسوں میں کہے گئے ہوں۔
ان وعدوں میں اقتصادی و معاشی حالات بہتر بنانا، خدمات کی فراہمی اور ریاست کی بحالی میں کامیابیاں حاصل کرنا شامل تھا، علاوہ ازیں یمنیوں کے لیے انقلابی پارٹی کی طرف سے فراہم کردہ راہوں سے امن کا حصول، یا تو منصفانہ مذاکراتی عمل کے ذریعے، یا ایک فوجی قرارداد کے ذریعے۔ جس کے لیے کونسل کی حمایت کرنے والی مختلف طاقتوں سے وابستہ مختلف ملٹری اور سیکورٹی فارمیشنز کو ایک نئی قانونی اتھارٹی کے طور پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی محقق فارس البیل نے "الشرق الاوسط" کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صدارتی کونسل کے تال میل تنوع کے باوجود زیادہ تر مثبت ہیں اور اس کا تسلسل اور اتفاق رائے عوامی مفادات کی ترجیح اور لوگوں کی ضروریات ہیں، وہ ریاست کی موجودگی اور عوام کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کی خاطر بہت دور جا سکتی ہے۔ اس کی توجہ کم از کم عدن اور آزاد کرائے گئے علاقوں میں زندگی کو معمول پر لانے اور بنیادی خدمات کی بحالی پر ہے۔
وہ صدر اور کونسل کی طرف سے گذشتہ ادوار میں پیش کی گئی تقریر کو اچھی اور عقلی قرار دیتے ہیں اور خاص طور پر؛ قیادت کا یہ احساس کہ وہ پچھلی قیادت کی انتہائی نقصان دہ اور منفی عدم موجودگی کے بعد آئی ہے اور گویا وہ ایک ذہین گفتگو پیش کر کے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس مرحلے کے اسٹریٹجک کاموں کے مطابق عوام، ان کی ترجیحات اور ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسی کے ساتھ رابطے میں ہے۔(...)
جمعرات - 29 ذی الحجہ 1443ہجری - 28 جولائی 2022ء شمارہ نمبر [15948]