رشدی پر حملہ کرنے والا ایرانی پاسداران انقلاب کا ہمدرد نکلا

ویڈیو ٹیپ کی ایک تصویر جس میں دو افراد ہادی مطر کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے لوگ سلمان رشدی کو چاقو مارے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں (اے پی)
ویڈیو ٹیپ کی ایک تصویر جس میں دو افراد ہادی مطر کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے لوگ سلمان رشدی کو چاقو مارے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں (اے پی)
TT

رشدی پر حملہ کرنے والا ایرانی پاسداران انقلاب کا ہمدرد نکلا

ویڈیو ٹیپ کی ایک تصویر جس میں دو افراد ہادی مطر کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے لوگ سلمان رشدی کو چاقو مارے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں (اے پی)
ویڈیو ٹیپ کی ایک تصویر جس میں دو افراد ہادی مطر کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے لوگ سلمان رشدی کو چاقو مارے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں (اے پی)
کل (ہفتہ) امریکی استغاثہ نے ایک روز قبل اس برطانوی مصنف سلمان رشدی کو قتل کرنے کی کوشش اور منصوبہ بند حملہ کرنے کا الزام لبنانی نزاد 24 سالہ ہادی مطر پر عائد کیا کے ہے جنہیں چاقو کے وار اور گردن پر شدید زخموں کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے اور ان کے جگر اور جسم کے مختلف حصے پر بھی حملے ہوئے ہیں اور ان کی ایک آنکھ بھی جا سکتی ہے۔

مغربی نیو یارک میں چوٹاؤکا کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی جیسن شمٹ نے کہا ہے کہ مطر کا تعلق فیئر ویو نیو جرسی سے ہے اور اسے چوٹاکوہ کاؤنٹی جیل میں بغیر ضمانت کے رکھا گیا ہے اور کل بعد میں مقدمے کی سماعت کی توقع ہے۔

اگرچہ یہ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور ایرانی پاسداران انقلاب کا ہمدرد ہے لیکن اس خبر کی تیاری کے وقت تک ایران میں اس حملے پر کوئی سرکاری تبصرہ جاری نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایرانی اخبارات میں اس کے مرتکب کی تعریف کی گئی ہے اور موجودہ مرشد علی خامنئی کی آنکھ کیہان نامی اخبار میں اس کے ایڈیٹر انچیف نے کہا ہے "ہزاروں سلام ہو اس فرمانبردار بہادر کو جنہوں نے مرتد پر حملہ کیا" اور 2019 میں ٹویٹر پر خامنئی کے اکاؤنٹ میں ایک ٹویٹ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے پیشرو آیت اللہ خمینی نے 1989 میں رشدی کے ناول "دا سیٹینک ورسیز" کی وجہ سے اس کا خون بہانے کے سلسلہ میں جو فتویٰ دیا ہے وا باقی ہے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا ہے۔(۔۔۔)

اتوار 16 محرم الحرام 1444ہجری -  14 اگست   2022ء شمارہ نمبر[15965]  



اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
TT

اسرائیل کو آج جمعرات کے روز غزہ میں "نسل کشی" کے مقدمے کا سامنا

کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)
کل بدھ کے روز وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے کے بعد ایک زخمی فلسطینی کو الاقصیٰ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف آج جمعرات کے روز ایک قانونی جنگ شروع کر رہی ہے کہ آیا غزہ میں "حماس" کے خلاف اسرائیل کی جنگ نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں اس نے ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کاروائیوں کو "فوری طور پر روکنے کا حکم" صادر کریں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ سابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن اس ہفتے سماعتوں میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے وفد میں شامل ہوں گے۔

"ایسوسی ایٹڈ پریس" ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ، جس کے حل ہونے میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے، اسرائیل جو کہ "ہولوکاسٹ میں نازی نسل کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہودی ریاست" ہے اس کے قومی تشخص کے مرکز کو متاثر کرے گا۔ اسی طرح اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے تشخص سے بھی ہے، کیونکہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس نے طویل عرصے سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ 1994 سے پہلے ملک پر زیادہ تر سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام اقلیت کے عنصریت پر مبنی نظام حکومت کے تحت اپنی تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل طویل عرصے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی عدالتوں کو متعصب اور غیر منصفانہ سمجھتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھیجے گا تاکہ "حماس" کی طرف سے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع کیے گئے اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کر سکے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جولیٹ میکانٹائر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں وہ (اسرائیلی) اس لیے عدالت انصاف آئے ہیں کیونکہ وہ اپنا نام صاف کرنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نسل کشی کے الزامات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔"

جمعرات-29 جمادى الآخر 1445ہجری، 11 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16480]