سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
TT

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
کتاب "بانی سید درویش" حال ہی میں اس کے مصنف وکٹر صحاب کی طرف سے شائع کی گئی ہے جو ایک باصلاحیت، یہاں تک کہ ایک میوزیکل لیجنڈ کی طرف توجہ دلاتی ہے جس نے عرب فنکارانہ انقلاب برپا کیا ہے اور اس سے مراد سید درویش ہیں جو غربت میں رہتے تھے لیکن لازوال کام چھوڑ گئے۔

سحاب نے سید درویش کی عظیم صلاحیتوں اور کام کرنے کی ان کی اعلیٰ صلاحیتوں، پرفارمنس پر مبنی نصوص کی کمپوزنگ اور پھر ڈرامے کمپوز کرنے کے بارے میں بتایا ہے جن میں سب سے پہلا "یہ سب اس سے ہے" تھا، یہ سب ان کے لئے بہت خیر کا ذریعہ بنا ہے اور لوگوں کی طرف سے اس طرح پذیرائی بھی ہوئی ہے کہ لوگوں نے ان کو مقام ومرتبہ میں سلامہ حجازی کی جگہ کھڑا کر دیا ہے لیکن فضول خرچی کرنے والے سید درویش نے اپنی جیب میں جو کچھ تھا اس کو خرچ کردیا اور جو غیب میں ہے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے جس کے نتیجے میں انتہائی غربت کی زندگی گزاری اور اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا اور اس دار فانی سے چلے گئے اور ان کے پاس جو بچا وہ چند کاغذات جس پر انہوں نے اپنے گیت لکھے، ایک لاٹھی اور عود اور دو بیٹے محمد البحر اور حسین درویش۔(۔۔۔)

اتوار 07 صفر المظفر 1444ہجری -  04 ستمبر   2022ء شمارہ نمبر[15986]    



مصری مصنف بہا طاہر کی وفات ہو چکی ہے

بہا طاہر
بہا طاہر
TT

مصری مصنف بہا طاہر کی وفات ہو چکی ہے

بہا طاہر
بہا طاہر
مصری مصنف بہا طاہر جمعرات کی شام 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں اس مرح عربی ناول کا ایک روشن چراغ بجھ گیا ہے جبکہ مرحوم نے اپنے اس سفر میں (سن سیٹ نخلستان، میری خالہ صفیہ اور خانقاہ اور جلاوطنی میں محبت) جیسے شاہکار کاموں کی ایک بڑی تعداد کے ذریعے اپنے مضبوط اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مصری ناقدین کے مطابق مرحوم کی کہانیوں اور ناولوں میں بنیادی خصوصیت ان کی انسانی فطرت اور جدید انسان کی روحانی حالت کا اظہار ہے۔

مرحوم کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے جیسا کہ ان کی ناول "میری خالہ صفیہ اور خانقاہ" کا دس زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور اسی طرح اسے اسی نام سے ڈرامہ سیریز میں بھی تبدیل کیا جا چکا ہے اور ساتھ ہی ناول "سن سیٹ نخلستان" کو اسی نام سے ایک سیریز میں تبدیل کیا گیا جا چکا ہے۔(۔۔۔)

ہفتہ 04 ربیع الثانی 1444ہجری -  29 اکتوبر   2022ء شمارہ نمبر[16041]    


لبنانی مصنفات: ہمیں بچوں کے ادب کی ضرورت ہے جو ہماری عصری زندگی کے مشابہ ہو

فاطمہ شرف الدین
فاطمہ شرف الدین
TT

لبنانی مصنفات: ہمیں بچوں کے ادب کی ضرورت ہے جو ہماری عصری زندگی کے مشابہ ہو

فاطمہ شرف الدین
فاطمہ شرف الدین
تین لبنانی مصنفات بچوں کے ادب میں مصروف ہیں: فاطمہ شرف الدین، لورکا سبیٹی اور رانیہ زغیر یا اینیل جیسا کہ وہ قانونی طور پر اپنا نام تبدیل کرنے اور پیرس منتقل ہونے کے بعد پکارا جانا پسند کرتی ہیں اور وہ ایک ایسے ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھتی ہیں جہاں ان کا مستقبل غیر یقینی ہے: کیا بچوں کی کتاب اب بھی شورش زدہ لبنانی مارکیٹ کی ترجیح ہے؟ کیا لکھنے کے موضوعات بڑوں کے خدشات کی وجہ سے چھوٹے بچوں کی عادات میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں؟ غیر ملکی زبانوں میں ویڈیوز کے حملے کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچے کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کی ثقافت کے علاقوں پر قبضہ کرتے ہیں؟

شرف الدین بیس سال قبل اس شعبے میں اپنے تجربے کے آغاز کے بعد سے بچوں کی کتابوں کے حالات میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہی ہیں اور اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ بچے کی صحت مند نشوونما اور اسکول کی کامیابی اور زندگی کے عزائم کو حاصل کرنے میں اچھی کتابوں کی اہمیت کے بارے میں والدین اور اساتذہ کی آگاہی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حقیقت کئی عوامل کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے، تخلیقی کتابیں تخلیق کرنے میں سنجیدہ مصنفین اور مصوروں کی موجودگی جو نوجوان قارئین کی عمر کے مطابق ان کی دلچسپیوں اور ضروریات کی تقلید کرتی ہے۔ دوم، پبلشنگ ہاؤسز کا پھیلاؤ جو بچوں کی کتابیں نشر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ تیسرا، ہماری سول سوسائٹی میں اداروں کا وجود بچوں میں پڑھنے کی اہمیت کو فروغ دینے اور سرکاری اسکولوں یا ثقافتی مراکز میں ان کے لئے کتابیں اور لائبریریاں فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

لیکن کتاب کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اینیل ایک سوال پوچھتی ہے: کیا کوئی مصنف کسی بچے کے لئے لکھنے کا اہل ہے؟ وہ نفی میں جواب دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بچوں کا ادب ایک ایسا جذبہ ہے جو مصنف کے پاس ہوتا ہے جس کی کمی کو تحقیق اور حوالوں سے پُر نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے لئے اعلیٰ حساسیت، ذائقہ اور بیداری کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کے اندرون سے مربوط ہوتی ہے اور لبنان میں تعلیمی تحریروں اور بچوں کے ادب کے درمیان بہت زیادہ الجھنیں پائی جاتی ہیں اور تعلیم کی کتابیں عام موضوعات کے ساتھ ملی ہوئیں ہوتی ہیں جیسے کہ لڑکیوں کا بدمعاش ہونا اور بااختیار بنانا جو بہت اہم ہے اور اس کا ازالہ بے حد ضروری ہے بس فرق یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں اور کس ذہنیت سے بات کریں۔(۔۔۔)

منگل 16 صفر المظفر 1444ہجری -  13 ستمبر   2022ء شمارہ نمبر[15995]     


مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے
TT

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے
الشرق الاوسط کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کولمبیا کے مشہور ناول نگار گیبریل مارکیز کے بیٹے روڈریگو گارسیا نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی موجودگی کی شدت اور ان کی بے پناہ شہرت سے کبھی کوئی تکلیف محسوس نہیں کی ہے تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سب کا ان پر بعد میں اثر ہوا ہے کیونکہ اگر ان کے والد کم مشہور اور کامیاب ہوتے تو وہ اسے دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کرتے، لیکن وہ کچھ بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں اور وہ اس بات کی تاکید بھی کر رہے ہیں کہ میرے والد میرے لیے اور دوسروں کے لیے برابر تھے۔

روڈریگو نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ عنوان اپنے والدین کو الوداع کہنا ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے آخری ہفتے اپنے والد کے ساتھ گزارے ہیں جن کا انتقال 2014 میں ہوا ہے اور انہوں نے آخری سال بھی اپنی والدہ کے ساتھ ان کی موت سے پہلے گزارا ہے اور اس مدت میں انہوں نے اپنے والدین کو الوداع کرنے کے معنی کو طویل اور گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے اور اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب تک وہ میرے خیالوں میں موجود نہ ہوں اور ان کی موت کا مطلب کسی چیز کا خاتمہ نہیں ہے۔(۔۔۔)

اتوار  27 جمادی الآخر 1443 ہجری  - 30  جنوری  2022ء شمارہ نمبر[15769] 


ادب میں نوبل انعام برطانیہ میں ایک تنزانیہ مہاجر کو دیا گیا ہے

عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
TT

ادب میں نوبل انعام برطانیہ میں ایک تنزانیہ مہاجر کو دیا گیا ہے

عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
نوبل انعام دینے والی سویڈش اکیڈمی نے کل اعلان کیا ہے کہ 72 سالہ تنزانیہ کے ناول نگار عبد الرزاق غورنا نے ادب کے لیے 2021 کا نوبل انعام حاصل کیا ہے اور یہ انعام ان کو ان کے "امیگریشن پر معلوماتی اور حساس کام اور نوآبادیات کے اثرات" کے لیے دیا گیا ہے۔

امیگریشن اور نوآبادیات کے اثرات کے سلسلہ میں غورنا کے دس ناول ہیں اور مشرقی افریقہ کے ساحل پر واقع جزیرہ زنجبار میں پیدا ہوئے جو تنزانیہ کا حصہ بن چکا ہے غورنا نے 1960 کی دہائی کے آخر میں آزادی کے چند سالوں کے بعد  ایک ایسے وقت میں جب خطے کے عربوں پر ظلم کیا جا رہا تھا برطانیہ میں پناہ مانگی تھی اور وہ 1984 تک زنجبار واپس نہیں آ سکے ہیں۔(۔۔۔)

جمعہ - 02 ربیع الاول 1443 ہجری - 08 اكتوبر 2021ء شمارہ نمبر [15655]


"ریسرچ اینڈ میڈیا" نے "ریف" پبلشنگ ہاؤس کا کیا آغاز

ریف پبلشنگ ہاؤس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عوام کی ضروریات کو پورا کرے گا (الشرق الاوسط)
ریف پبلشنگ ہاؤس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عوام کی ضروریات کو پورا کرے گا (الشرق الاوسط)
TT

"ریسرچ اینڈ میڈیا" نے "ریف" پبلشنگ ہاؤس کا کیا آغاز

ریف پبلشنگ ہاؤس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عوام کی ضروریات کو پورا کرے گا (الشرق الاوسط)
ریف پبلشنگ ہاؤس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عوام کی ضروریات کو پورا کرے گا (الشرق الاوسط)
کل سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ (ایس آر ایم جی) نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، نئے اور جدید کاروباری ماڈلز کو اپناتے ہوئے اور دنیا بھر کے بڑے پبلشنگ ہاؤسز کے ساتھ بین الاقوامی شراکت داری قائم کرتے ہوئے ریف پبلشنگ ہاؤس کا آغاز کیا ہے۔

ریف ہاؤس ایک طویل تاریخ اور غیر معمولی کی توسیع ہے جسے سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ نے علاقے میں مواد اور معلومات کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر حاصل کیا ہے۔

اس ہاؤس کے کام کا آغاز گزشتہ جمعرات سے شروع ہوکر دس دن تک جاری رہنے والے ریاض بین الاقوامی کتاب میلے کے ذریعہ شروع کیا اس کا مقصد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کا ایک جدید ترین پبلشنگ ہاؤس بننا ہے۔

نئے پبلشنگ ہاؤس جدید کاروباری ماڈل، ڈیجیٹل فارمیٹس اور جدید پبلشنگ ٹیکنالوجیز استعمال کرے گا اور پرنٹ آن ڈیمانڈ، ای بکس اور آڈیو بکس کی خدمات بھی پیش کرے گا۔(۔۔۔)

پیر - 27 صفر المظفر 1443 ہجری - 04 اكتوبر 2021ء شمارہ نمبر [15651]


دمشق "نوبل" کے بغیر اور کوئی "بیداری" بھی نہیں ہے

دمشق میں نوبل لائبریری کے دروازے بند ہونے سے پہلے اس کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے
دمشق میں نوبل لائبریری کے دروازے بند ہونے سے پہلے اس کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے
TT

دمشق "نوبل" کے بغیر اور کوئی "بیداری" بھی نہیں ہے

دمشق میں نوبل لائبریری کے دروازے بند ہونے سے پہلے اس کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے
دمشق میں نوبل لائبریری کے دروازے بند ہونے سے پہلے اس کے منظر کو دیکھا جا سکتا ہے
دمشق میں "نوبل" لائبریری کے بند ہونے کی خبر شامی دارالحکومت کے لوگوں پر بجلی کی طرح گری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام پچھلی صدی کی ستر کی دہائی سے قاری کی یادداشت سے وابستہ ہے اور خاص طور پر "دار الیقظہ" اور دوسری لائبریریوں اور اشاعتی اداروں کی بند ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔

لائبریری کے ایک مالک ایڈمنڈ نذر کے بیان کے مطابق "نوبل" کو بند کرنے کا فیصلہ ذاتی وجوہات کی بنا پر لیا گیا ہے جس نے اسے ریستوران میں تبدیل کرنے کی افواہوں کی تردید کی ہے اور لائبریری کے مالکان کے قریبی ذرائع بھائیوں جمیل اور ایڈمنڈ نذیر نے الشرق الاوسط کو بتایا ہے کہ اس کی وجہ دو ساتھی بھائیوں میں سے ایک کا کینیڈا ہجرت کرنے سے متعلق ہے اور وہ دور سے لائبریری کے معاملات پر نظر رکھنے سے قاصر ہیں اور ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اسے بھی مد نظر رکھنا ہے اور اب فروخت کی وجہ سے لائبریری کھولنے کی لاگت کا کچھ حصہ پورا نہیں ہو پاتا ہے۔(۔۔۔)

جمعہ 17 صفر المظفر 1443 ہجرى – 24 ستمبر 2021ء شماره نمبر [15641]


عربی خطاطی میں عرب اور غیر ملکی سرخیل کا استقبال ہوا ہے

"نجیب محفوظ کے مقولہ" پر مشتمل پولینڈ کی خاتون مصور ایزابیلا اوچمن کی ایک پینٹنگ دیکھی جا سکتی ہے
"نجیب محفوظ کے مقولہ" پر مشتمل پولینڈ کی خاتون مصور ایزابیلا اوچمن کی ایک پینٹنگ دیکھی جا سکتی ہے
TT

عربی خطاطی میں عرب اور غیر ملکی سرخیل کا استقبال ہوا ہے

"نجیب محفوظ کے مقولہ" پر مشتمل پولینڈ کی خاتون مصور ایزابیلا اوچمن کی ایک پینٹنگ دیکھی جا سکتی ہے
"نجیب محفوظ کے مقولہ" پر مشتمل پولینڈ کی خاتون مصور ایزابیلا اوچمن کی ایک پینٹنگ دیکھی جا سکتی ہے
عربی خطاطی کے چھٹے سیشن میں قاہرہ انٹرنیشنل فورم برائے عربی خطاطی فن نے اس خطاطی کے ان عرب اور غیر ملکی دونوں علمبرداروں کا استقبال کیا ہے جنہوں نے اس فن کی علمی بنیادیں وضع کی ہے اور انہیں ترقی بھی دی ہے۔

فورم کے چھٹے اجلاس کی سرگرمیاں "قلم کے ذریعہ تعلیم دیں" کے عنوان کے تحت ہوں گی جس میں مصر، سعودی عرب، عراق، جزائر، تیونس، مراکش ، چین، انڈونیشیا، ملائیشیا، اٹلی، پولینڈ، برطانیہ اور تنزانیہ سمیت 18 ممالک کے 153 فنکاروں کی شرکت ہوگی اور اس کورس میں اس فن کی نمائش کے علاوہ فنی ورکشاپس، علمی سیمینارز اور دستاویزی فلموں سمیت متعدد سرگرمیاں شامل ہیں۔

اس نمائش میں حصہ لینے والے فن پاروں کے اوپر فورم کے عنوان "قلم کے ذریعہ تعلیم دیں" کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ اس میں ایسے نصوص استعمال ہوئے ہیں جو اسلامی فن تعمیر اور تہذیب سے متاثرہ آرائشی شکلوں کے جمالیاتی اقدار کو اجاگر کرتے ہیں۔(۔۔۔)

ہفتہ 24 شوال المعظم 1442 ہجرى – 05 جون 2021ء شماره نمبر [15530]


سکاٹش امریکی "بوکر پرائز" سے سرفراز

اسکاٹش - امریکی مصنف ڈگلس اسٹیورٹ کو ان کے پہلے ناول شاگ بین کے لئے افسانہ 2020 کے برطانوی بوکر پرائز کے لئے منتخب کیا گیا ہے
اسکاٹش - امریکی مصنف ڈگلس اسٹیورٹ کو ان کے پہلے ناول شاگ بین کے لئے افسانہ 2020 کے برطانوی بوکر پرائز کے لئے منتخب کیا گیا ہے
TT

سکاٹش امریکی "بوکر پرائز" سے سرفراز

اسکاٹش - امریکی مصنف ڈگلس اسٹیورٹ کو ان کے پہلے ناول شاگ بین کے لئے افسانہ 2020 کے برطانوی بوکر پرائز کے لئے منتخب کیا گیا ہے
اسکاٹش - امریکی مصنف ڈگلس اسٹیورٹ کو ان کے پہلے ناول شاگ بین کے لئے افسانہ 2020 کے برطانوی بوکر پرائز کے لئے منتخب کیا گیا ہے
گزشتہ روز یہ اعلان کیا گیا ہے کہ سکاٹش امریکی مصنف ڈگلس اسٹیورٹ نے برطانوی "بوکر پرائز" جیت لی ہے اور یہ ایک انتہائی قابل ادب ادبی ایوارڈ ہے۔

یہ ناول گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) میں ایک محنت کش طبقے کے کنبے کے بارے میں ترتیب دیا گیا ہے جسے 1980 کی دہائی میں غربت اور شراب نوشی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور نیویارک میں فیشن انڈسٹری میں کام کرنے سے پہلے یہ مصنف خود گلاسگو میں بڑا ہوا ہے۔

اسٹیورٹ کے علاوہ حتمی فہرست میں زمبابوے سے تعلق رکھنے والے مصنف سیسیسی دنگریمبگا اور بوکر فائنل میں پہنچنے والے پہلے ایتھوپیا کے مصنف مزا مینگیستھی شامل تھے اور اس کے علاوہ امریکیوں کے علاوہ ڈیان کوک ، اونی ڈوچی اور برانڈن ٹیلر بھی شامل تھے۔(۔۔۔)

جمعہ 04 ربیع الآخر 1442 ہجرى – 20 نومبر 2020ء شماره نمبر [15333]


نسل پرستانہ گفتگو کو اجاگر کرنے میں خلیجی ناول کا کردار

فريد رمضان – ڈاکٹر فهد حسين - ڈاکٹر حسن النعمي - فهد الهندال - يوسف المحيميد کو دیکھا جا سکتا ہے
فريد رمضان – ڈاکٹر فهد حسين - ڈاکٹر حسن النعمي - فهد الهندال - يوسف المحيميد کو دیکھا جا سکتا ہے
TT

نسل پرستانہ گفتگو کو اجاگر کرنے میں خلیجی ناول کا کردار

فريد رمضان – ڈاکٹر فهد حسين - ڈاکٹر حسن النعمي - فهد الهندال - يوسف المحيميد کو دیکھا جا سکتا ہے
فريد رمضان – ڈاکٹر فهد حسين - ڈاکٹر حسن النعمي - فهد الهندال - يوسف المحيميد کو دیکھا جا سکتا ہے
عالمی سطح پر نسل پرستی کے مسئلے نے افریقی امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے ساتھ ہونے والے مظاہروں کے بعد نسل پرستی کی مذمت کرنے اور اس کی بیان بازی کو بے نقاب کرنے کا موقع پیش کیا ہے۔

خلیج میں اور جب سے اظہار رائے کی آزادی کا دائرہ وسیع ہوا تو نسل پرستی کے افشا کو بے نقاب کرنے، انکشاف کرنے اور اسے ختم کرنے کے لئے ادب کا کردار خاص طور پر افسانہ نگاروں کا کردار سامنے آیا ہے  اور خاموش امور میں ناول نگاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے  اور اس کی قابل مذمت شکلوں میں نسل پرستی کا مقابلہ کرنے والے جرتمندانہ اقدامات کی رفتار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

سعودی ناول کو نسل پرستی کے سلسلہ میں ایک پرکشش مادے کی حیثیت سے مقام ملا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے علاقوں کے مابین تفریق پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن انفرادی رویہ یا طرز عمل کے ذریعہ اور دوچار شخصیات کے ذریعہ اسے دوری کا سامنا ہوا ہے۔(۔۔۔)

اتوار 29 شوال المکرم 1441 ہجرى - 21 جون 2020ء شماره نمبر [15181]


امید کی دس کلیدیں

امید کی دس کلیدیں
TT

امید کی دس کلیدیں

امید کی دس کلیدیں
حال ہی میں "عرب ثقافتی مرکز" کے ذریعہ کیتھرین ٹیسٹا کی لکھی ہوئی کتاب "چلو امید قائم کریں!: آپ کی روز مرہ زندگی میں خوشی لانے کی دس کلیدیں" کا عربی ترجمہ شائع ہوا ہے اور اس کا ترجمہ شامی مصنف مان ایکیل نے کیا ہے۔

کتاب کے سرورق پر لکھا ہوا ہے کہ "ہم ہمیشہ بالکل مختلف زندگی کے ایک فیصلہ کی دوری پر رہتے ہیں اور میرے پاس ہمت نہیں ہے یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے کیتھرین ٹیسٹا بار بار سننا نہیں چاہتے ہیں، خواہ آپ کا مقصد جو بھی ہو، خواہ وہ نیا معاملہ ہو، پیشہ ورانہ تبدیلی ہو یا کوئی نیا منصوبہ ہو، اپنے خوف پر قابو پالیں اور اپنے آپ پر اعتماد کریں۔ کلید؟ امید یہ کسی بھی عمل اور زندگی میں کسی بھی پیشرفت کی اساس ہے۔

عظیم معنی پر مشتمل یہ چھوٹی سی کتاب اپنے اندر اچھے مشورے سموئے ہوئے ہے اور اس میں ٹھوس مثالوں اور مثبت جملے بھی ہیں جو واقعی خوشی کی بات ہے اور یہ کتاب ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اچھے مشورے پیش کرتی ہے اور ہمیں آگے بڑھنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی کلیدیں فراہم کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ برے سے برے حال میں بھی کوشش کریں؛ کیونکہ یہ کام مفید ہے۔

کیتھرین ٹیسٹا ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں  اور ان کی کتاب "آئیں! پر امید ہوں!" فرانس میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے جہاں اس کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں اور آج وہ ایک رہنماء اور ٹرینر کے طور پر دنیا کا سیر کر رہی ہیں، پیرس سے نیو یارک جاکر امید پر مبنی کانفرنسوں میں شرکت کر رہی ہیں۔

بدھ 27 رمضان المبارک 1441 ہجرى - 20 مئی 2020ء شماره نمبر [15149]