سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
TT

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
کتاب "بانی سید درویش" حال ہی میں اس کے مصنف وکٹر صحاب کی طرف سے شائع کی گئی ہے جو ایک باصلاحیت، یہاں تک کہ ایک میوزیکل لیجنڈ کی طرف توجہ دلاتی ہے جس نے عرب فنکارانہ انقلاب برپا کیا ہے اور اس سے مراد سید درویش ہیں جو غربت میں رہتے تھے لیکن لازوال کام چھوڑ گئے۔

سحاب نے سید درویش کی عظیم صلاحیتوں اور کام کرنے کی ان کی اعلیٰ صلاحیتوں، پرفارمنس پر مبنی نصوص کی کمپوزنگ اور پھر ڈرامے کمپوز کرنے کے بارے میں بتایا ہے جن میں سب سے پہلا "یہ سب اس سے ہے" تھا، یہ سب ان کے لئے بہت خیر کا ذریعہ بنا ہے اور لوگوں کی طرف سے اس طرح پذیرائی بھی ہوئی ہے کہ لوگوں نے ان کو مقام ومرتبہ میں سلامہ حجازی کی جگہ کھڑا کر دیا ہے لیکن فضول خرچی کرنے والے سید درویش نے اپنی جیب میں جو کچھ تھا اس کو خرچ کردیا اور جو غیب میں ہے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے جس کے نتیجے میں انتہائی غربت کی زندگی گزاری اور اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا اور اس دار فانی سے چلے گئے اور ان کے پاس جو بچا وہ چند کاغذات جس پر انہوں نے اپنے گیت لکھے، ایک لاٹھی اور عود اور دو بیٹے محمد البحر اور حسین درویش۔(۔۔۔)

اتوار 07 صفر المظفر 1444ہجری -  04 ستمبر   2022ء شمارہ نمبر[15986]    



ادب میں نوبل انعام برطانیہ میں ایک تنزانیہ مہاجر کو دیا گیا ہے

عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
TT

ادب میں نوبل انعام برطانیہ میں ایک تنزانیہ مہاجر کو دیا گیا ہے

عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
عبد الرزاق غورنا کو کل جنوبی انگلینڈ کے کینٹربری میں اپنے گھر کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے (اے بی)
نوبل انعام دینے والی سویڈش اکیڈمی نے کل اعلان کیا ہے کہ 72 سالہ تنزانیہ کے ناول نگار عبد الرزاق غورنا نے ادب کے لیے 2021 کا نوبل انعام حاصل کیا ہے اور یہ انعام ان کو ان کے "امیگریشن پر معلوماتی اور حساس کام اور نوآبادیات کے اثرات" کے لیے دیا گیا ہے۔

امیگریشن اور نوآبادیات کے اثرات کے سلسلہ میں غورنا کے دس ناول ہیں اور مشرقی افریقہ کے ساحل پر واقع جزیرہ زنجبار میں پیدا ہوئے جو تنزانیہ کا حصہ بن چکا ہے غورنا نے 1960 کی دہائی کے آخر میں آزادی کے چند سالوں کے بعد  ایک ایسے وقت میں جب خطے کے عربوں پر ظلم کیا جا رہا تھا برطانیہ میں پناہ مانگی تھی اور وہ 1984 تک زنجبار واپس نہیں آ سکے ہیں۔(۔۔۔)

جمعہ - 02 ربیع الاول 1443 ہجری - 08 اكتوبر 2021ء شمارہ نمبر [15655]