گزشتہ روز عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اس سال عاشورہ کے طویل سیزن کے اختتام کے بعد سیاسی کشیدگی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملک کا سیاسی بحران "2003 کے بعد سب سے مشکل بحرانوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔" انہوں نے سیاسی قوتوں پر زور دیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے لیے مذاکرات میں شامل ہوں۔
الکاظمی نے اپنے بیان میں کہا کہ "ہمیں امید اور عزم ہے کہ ہم ایک محفوظ اور مستحکم عراق کی جانب بڑھتے ہوئے اس بحران پر قابو پانے کے لیے حل تلاش کریں گے۔" الکاظمی نے تمام سیاسی قوتوں سے مطالبہ کیا کہ "عراق اور عراقی عوام ہماری نظروں کے سامنے ہونی چاہیئے"، مزید کہا کہ: عراق اور عراقی عوام مستحق ہیں کہ ہم ان کے لیے قربانی دیں۔ عراق سب کے پاس ایک امانت ہے۔"
الکاظمی کی کال کے متوازی، "کوآرڈینیٹنگ فریم ورک" فورسز کے دو سرکردہ رہنماؤں نے، جن میں الصدر تحریک کے رہنما مقتدیٰ الصدر کے کچھ شدید مخالفین بھی شامل ہیں، مذاکرات پر زور دیا تاکہ معاملات دو سب سے نمایاں شیعہ قوتوں، الصدر تحریک اور ایران کے قریبی "کوآرڈینیٹنگ فریم ورک" قوتوں کے درمیان کھلے تصادم کی طرف نہ چلے جائیں؛ ایک بیان میں "نیشنل وزڈم موومنٹ" کے سربراہ عمار الحکیم نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صفوں کو بند کریں، کاوشوں کو متحد کریں اور ایک موقت تک پہنچیں۔(...)
اتوار - 22 صفر 1444ہجری - 18 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [16000]