روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرائنی جنگ کے ایک نئے مرحلے کا افتتاح کیا ہے کیونکہ کل صبح انہوں نے قوم سے خطاب کیا ہے جس میں انہوں نے جزوی فوجی متحرک ہونے اور ذخائر کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے روس کی جانب سے تمام ذرائع استعمال کرنے کی تیاری کا اشارہ بھی کیا ہے اور پوٹن کا لب ولہجہ مغرب کے لئے زیادہ چیلنجنگ لگ رہا تھا اور اپنے ملک کے مقاصد کے حصول تک تصادم کو جاری رکھنے اور بڑھانے پر زیادہ اصرار تھا۔
جان بوجھ کر کیو کی حالیہ فیلڈ پیشرفت کو نظر انداز کرتے ہوئے،پوتن نے کہا ہے کہ ان کی فوج یوکرین کو قدم بہ قدم آزاد کر رہی ہے اور مزید یہ بھی کہا کہ مغرب نے جوہری بلیک میلنگ کا استعمال کیا ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ میں انہیں یاد دلانا چاہوں گا کہ ہمارے ملک کے پاس بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور بعض حصوں میں وہ (نیٹو) ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور انہوں نے عہد بھی کیا کہ اپنی علاقائی سالمیت یا خودمختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کے پیش نظر ہم ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے قابل ہیں۔
پوٹن کی تقریر کے چند گھنٹے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں سالانہ اجلاس کے لئے جمع ہونے والے درجنوں عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ روسی رہنما ولادیمیر پوٹن کی لاپرواہی کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور یوکرین کو اکھاڑ پھینکنے کے مقصد سے کام کرنے کا الزام بھی ان لگایا ہے۔(۔۔۔)
جمعرات 26 صفر المظفر 1444ہجری - 22 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر[16004]