یمن حوثیوں کے خلاف "فیصلہ کن جنگ" کی دھمکی دے رہا ہے

اگر امن کی کوششیں ناکام رہیں

گذشتہ پیر کے روز یمنی وزیر اعظم (بائیں جانب) جنیوا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ (سبا)
گذشتہ پیر کے روز یمنی وزیر اعظم (بائیں جانب) جنیوا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ (سبا)
TT

یمن حوثیوں کے خلاف "فیصلہ کن جنگ" کی دھمکی دے رہا ہے

گذشتہ پیر کے روز یمنی وزیر اعظم (بائیں جانب) جنیوا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ (سبا)
گذشتہ پیر کے روز یمنی وزیر اعظم (بائیں جانب) جنیوا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ (سبا)

یمنی حکومت نے حوثی ملیشیا کی دہشت گردی کے خلاف مضبوط بین الاقوامی موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر امن کی کوششیں ناکام ہوئیں تو حوثیوں کے خلاف "فیصلہ کن جنگ" شروع کر دی جائے گی۔ جو کہ خاص طور پر ان کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافے اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں عوام کے خلاف ان کے بڑھتے ہوئے جرائم کے سبب ہے۔
جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس سے ملاقات کے دوران وزیراعظم معین عبدالملک نے قیام امن کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کی خاطر حکومت اور "صدارتی قیادت کونسل" کی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تہران میں حوثی ملیشیا اور اس کے حامیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے موقف اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ یمنی عوام کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ (...)

بدھ - 8 شعبان 1444 ہجری - 01 مارچ 2023ء شمارہ نمبر [16164]
 



پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
TT

پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)

پاکستان میں کل عام انتخابات مکمل ہوئے، جب کہ حکومت کی طرف سے انتخابات کے عمل کے دوران سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل فون سروس منقطع کرنے کے فیصلے کے باوجود بھی تشدد اور دھاندلی کے شبہات سے پاک نہیں تھے۔

مبصرین نے توقع کی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید اور ان کی پارٹی "تحریک انصاف" اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مباحثوں کے زیر سایہ کمزور انتخابی مہم کے بعد رائے شماری میں شرکت کرنے والوں کی شرح میں کمی دیکھی جائے گی، جیسا کہ 128 ملین ووٹرز نے وفاقی پارلیمنٹ کے لیے 336 نمائندوں کو اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرنا تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ان کی پارٹی "پاکستان مسلم لیگ ن" کو سب سے خوش قسمت شمار کیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اکثریت حاصل نہیں کر پاتے ہیں، جس کا امکان ہے، تو وہ ایک یا زیادہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر اتحاد کے ذریعے اقتدار سنبھال لیں گے، جس میں لالاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ان کی خاندانی جماعت "پاکستان پیپلز پارٹی" بھی شامل ہے۔

مبصرین نے کل کے انتخابات کو "صورتحال بدل کر"  2018 کے انتخابات سے تشبیہ دی ہے، کیونکی اس وقت نواز شریف کو متعدد مقدمات میں بدعنوانی کے الزام میں سزا ہونے کی وجہ سے امیدواری سے باہر کر دیا گیا اور عمران خان فوج کی حمایت اور عوامی حمایت کی بدولت اقتدار میں آئے۔ دوسری جانب، نواز شریف نے لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اقتدار میں واپسی کے لیے فوج کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہے۔ (...)

جمعہ-28 رجب 1445ہجری، 09 فروری 2024، شمارہ نمبر[16509]