العلیمی حوثیوں کو "سخت جواب" کی دھمکی دے رہے ہیں

"صدارتی قیادت کونسل" نے قومی اتفاق رائے کی تصدیق کی

رشاد العلیمی (سبا)
رشاد العلیمی (سبا)
TT

العلیمی حوثیوں کو "سخت جواب" کی دھمکی دے رہے ہیں

رشاد العلیمی (سبا)
رشاد العلیمی (سبا)

کل بدھ کے روز یمنی صدارتی قیادت کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی نے حوثیوں کو دھمکی دی کہ "آزاد شدہ علاقوں اور گورنریٹس پر ان کے حملوں کا مقابلہ سخت اجتماعی ردعمل" کے ساتھ دیا جائے گا۔ انہوں نے "حوثی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے عبوری مرحلے کے دوران اپنا اور کونسل کے اراکین کا شراکت داری اور قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر امور کو چلانے کے عزم کا اعادہ کیا۔"
العلیمی کے بیانات ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں سامنے آئے جو انہوں نے ریاض میں اپنی رہائش گاہ سے "مشاورت اور مصالحتی کمیشن" کے اختتامی اجلاس کو ارسال کیا تھا۔ جب کہ اس اجلاس کی سرگرمیاں کام کے ضوابط، جامع امن عمل کے لیے سیاسی وژن کے عمومی فریم ورک اور سیاسی قوتوں اور اجزاء کے مابین مفاہمت کے اصولوں سے متعلق تین دستاویزات کی منظوری کے بعد عدن میں اختتام پذیر ہوئیں۔
العلیمی نے کہا کہ "شراکت داری اور قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے جو آئینی حلف اور عہد ہم نے بطور صدارتی قیادت کونسل کے اراکین شمال اور جنوب کی عوام کے ساتھ کیا تھا، ہم اس پر ابھی تک قائم ہیں اور ہرگز اس سے انحراف نہیں کریں گے چاہے جتنے چیلنچز کیوں نہ ہوں۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم یہاں آج آپ سے بات کر رہے ہیں تاکہ اپنے اسٹریٹجک اتحاد کی مضبوطی اور عبوری دور میں اس کے مشترکہ اہداف کے بارے میں بڑھتے ہوئے اعتماد کی تصدیق کر سکیں۔"(...)

جمعرات - 16 شعبان 1444ہجری - 09 مارچ 2023 ء شمارہ نمبر [16172]
 



پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
TT

پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)

پاکستان میں کل عام انتخابات مکمل ہوئے، جب کہ حکومت کی طرف سے انتخابات کے عمل کے دوران سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل فون سروس منقطع کرنے کے فیصلے کے باوجود بھی تشدد اور دھاندلی کے شبہات سے پاک نہیں تھے۔

مبصرین نے توقع کی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید اور ان کی پارٹی "تحریک انصاف" اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مباحثوں کے زیر سایہ کمزور انتخابی مہم کے بعد رائے شماری میں شرکت کرنے والوں کی شرح میں کمی دیکھی جائے گی، جیسا کہ 128 ملین ووٹرز نے وفاقی پارلیمنٹ کے لیے 336 نمائندوں کو اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرنا تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ان کی پارٹی "پاکستان مسلم لیگ ن" کو سب سے خوش قسمت شمار کیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اکثریت حاصل نہیں کر پاتے ہیں، جس کا امکان ہے، تو وہ ایک یا زیادہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر اتحاد کے ذریعے اقتدار سنبھال لیں گے، جس میں لالاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ان کی خاندانی جماعت "پاکستان پیپلز پارٹی" بھی شامل ہے۔

مبصرین نے کل کے انتخابات کو "صورتحال بدل کر"  2018 کے انتخابات سے تشبیہ دی ہے، کیونکی اس وقت نواز شریف کو متعدد مقدمات میں بدعنوانی کے الزام میں سزا ہونے کی وجہ سے امیدواری سے باہر کر دیا گیا اور عمران خان فوج کی حمایت اور عوامی حمایت کی بدولت اقتدار میں آئے۔ دوسری جانب، نواز شریف نے لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اقتدار میں واپسی کے لیے فوج کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہے۔ (...)

جمعہ-28 رجب 1445ہجری، 09 فروری 2024، شمارہ نمبر[16509]