اسرائیلی انٹیلی جنس ایسی جنگ کی توقع کر رہی ہے جو "کوئی نہیں چاہتا"

واشنگٹن کے ساتھ سرد تعلقات عسکری میدان میں پھیلنے لگے

نابلس کے قریب ایک فوجی آپریشن کے دوران دو اسرائیلی فوجی علاقے میں تلاشی لے رہے ہیں (اے ایف پی)
نابلس کے قریب ایک فوجی آپریشن کے دوران دو اسرائیلی فوجی علاقے میں تلاشی لے رہے ہیں (اے ایف پی)
TT

اسرائیلی انٹیلی جنس ایسی جنگ کی توقع کر رہی ہے جو "کوئی نہیں چاہتا"

نابلس کے قریب ایک فوجی آپریشن کے دوران دو اسرائیلی فوجی علاقے میں تلاشی لے رہے ہیں (اے ایف پی)
نابلس کے قریب ایک فوجی آپریشن کے دوران دو اسرائیلی فوجی علاقے میں تلاشی لے رہے ہیں (اے ایف پی)

اسرائیلی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس ڈویژن (امان) نے دیکھا کہ پچھلے مہینوں میں خطے میں جنگ چھڑنے کا امکان بڑھ گیا ہے "جو کوئی نہیں چاہتا"۔ "امان" نے کل (منگل کے روز) جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا کہ رمضان کے مہینے میں حالیہ اضافہ 3 مرکزی پیش رفتوں کے سبب ہے، جو اسرائیل کے اسٹریٹجک ماحول میں تبدیلی کا باعث بنا۔ ان میں مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں امریکی دلچسپی میں کمی، اسرائیل کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوششوں کے ذریعے ایران کی خود اعتمادی اور فلسطینی علاقوں میں عدم استحکام میں اضافہ شامل ہے۔
"ہاریٹز" کے ملٹری ایڈیٹر عاموس ہرئیل نے نشاندہی کی کہ واشنگٹن کے ساتھ سرد تعلقات کا اثر فوجی میدان میں داخل ہونے لگا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج دعویٰ کرتی ہے کہ امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ (Centcom) کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں، لیکن "موجودہ تاثر یہ ہے کہ امریکی اسرائیل کی انٹیلی جنس معلومات اور آپریشنل منصوبوں میں شرکت کے بارے میں کم پرجوش ہیں۔" (...)

بدھ - 21 رمضان 1444 ہجری - 12 اپریل 2023ء شمارہ نمبر [16206]
 



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]