ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ایک بار پھر ریاستی پالیسیوں پر عوامی ریفرنڈم کرانے کا دروازہ بند کر دیا ہے، جو کہ ان کی جانب سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے ایرانی آئین میں تبدیل کو مسترد کیے جانے کے بعد ہے۔
جب کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ان مظاہروں میں اس وقت مزیداضافہ ہوا جب "اخلاقی پولیس" نے ایک کرد خاتون مہسا امینی کو ناقص پردے کے بہانے حراست میں کیا اور اس دوران اس کی موت واقع ہوگئی تھی، چنانچہ اس تناظر میں موجودہ حکومتی فارمولہ یعنی "اسلامی جمہوریہ" سمیت ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے مطالبات میں اضافہ ہوگیا۔
جب خامنہ ای سے ایران کی بعض یونیورسٹیوں کے طلباء کے ایک ہجوم کی ملاقات کے دوران ان سے ریفرنڈم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کسی بھی ریفرنڈم کے انعقاد سے انکار کیا۔ یاد رہے کہ خامنہ ای کو ایسی پالیسیوں میں حتمی رائے کا حق حاصل ہے۔
خامنہ ای نے پوچھا: "کیا ملک کے مختلف مسائل ریفرنڈم سے مشروط ہیں... دنیا میں یہ کہاں ہو رہا ہے؟ کیا جن لوگوں کا ریفرنڈم میں حصہ لینا ضروری ہے وہ ان مسائل کا تجزیہ کر سکتے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی؟" انہوں نے مزید کہا: "کیا کسی ایک مسئلے کے حوالے سے ملک 6 ماہ تک بحث، دلائل اور عوامی مقبولیت میں مشغول رہے گا، تاکہ اس مسئلے پر ریفرنڈم کرایا جا سکے۔" جیسا کہ" ایسوسی ایٹڈ پریس" نے رپورٹ کیا ہے۔" (...)
جمعرات - 29 رمضان 1444 ہجری - 20 اپریل 2023ء شمارہ نمبر [16214]