سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
TT

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام

سید درویش۔۔۔ بے حد غربت اور لافانی کام
کتاب "بانی سید درویش" حال ہی میں اس کے مصنف وکٹر صحاب کی طرف سے شائع کی گئی ہے جو ایک باصلاحیت، یہاں تک کہ ایک میوزیکل لیجنڈ کی طرف توجہ دلاتی ہے جس نے عرب فنکارانہ انقلاب برپا کیا ہے اور اس سے مراد سید درویش ہیں جو غربت میں رہتے تھے لیکن لازوال کام چھوڑ گئے۔

سحاب نے سید درویش کی عظیم صلاحیتوں اور کام کرنے کی ان کی اعلیٰ صلاحیتوں، پرفارمنس پر مبنی نصوص کی کمپوزنگ اور پھر ڈرامے کمپوز کرنے کے بارے میں بتایا ہے جن میں سب سے پہلا "یہ سب اس سے ہے" تھا، یہ سب ان کے لئے بہت خیر کا ذریعہ بنا ہے اور لوگوں کی طرف سے اس طرح پذیرائی بھی ہوئی ہے کہ لوگوں نے ان کو مقام ومرتبہ میں سلامہ حجازی کی جگہ کھڑا کر دیا ہے لیکن فضول خرچی کرنے والے سید درویش نے اپنی جیب میں جو کچھ تھا اس کو خرچ کردیا اور جو غیب میں ہے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے جس کے نتیجے میں انتہائی غربت کی زندگی گزاری اور اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا اور اس دار فانی سے چلے گئے اور ان کے پاس جو بچا وہ چند کاغذات جس پر انہوں نے اپنے گیت لکھے، ایک لاٹھی اور عود اور دو بیٹے محمد البحر اور حسین درویش۔(۔۔۔)

اتوار 07 صفر المظفر 1444ہجری -  04 ستمبر   2022ء شمارہ نمبر[15986]    



مصری مصنف بہا طاہر کی وفات ہو چکی ہے

بہا طاہر
بہا طاہر
TT

مصری مصنف بہا طاہر کی وفات ہو چکی ہے

بہا طاہر
بہا طاہر
مصری مصنف بہا طاہر جمعرات کی شام 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں اس مرح عربی ناول کا ایک روشن چراغ بجھ گیا ہے جبکہ مرحوم نے اپنے اس سفر میں (سن سیٹ نخلستان، میری خالہ صفیہ اور خانقاہ اور جلاوطنی میں محبت) جیسے شاہکار کاموں کی ایک بڑی تعداد کے ذریعے اپنے مضبوط اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مصری ناقدین کے مطابق مرحوم کی کہانیوں اور ناولوں میں بنیادی خصوصیت ان کی انسانی فطرت اور جدید انسان کی روحانی حالت کا اظہار ہے۔

مرحوم کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے جیسا کہ ان کی ناول "میری خالہ صفیہ اور خانقاہ" کا دس زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور اسی طرح اسے اسی نام سے ڈرامہ سیریز میں بھی تبدیل کیا جا چکا ہے اور ساتھ ہی ناول "سن سیٹ نخلستان" کو اسی نام سے ایک سیریز میں تبدیل کیا گیا جا چکا ہے۔(۔۔۔)

ہفتہ 04 ربیع الثانی 1444ہجری -  29 اکتوبر   2022ء شمارہ نمبر[16041]    


لبنانی مصنفات: ہمیں بچوں کے ادب کی ضرورت ہے جو ہماری عصری زندگی کے مشابہ ہو

فاطمہ شرف الدین
فاطمہ شرف الدین
TT

لبنانی مصنفات: ہمیں بچوں کے ادب کی ضرورت ہے جو ہماری عصری زندگی کے مشابہ ہو

فاطمہ شرف الدین
فاطمہ شرف الدین
تین لبنانی مصنفات بچوں کے ادب میں مصروف ہیں: فاطمہ شرف الدین، لورکا سبیٹی اور رانیہ زغیر یا اینیل جیسا کہ وہ قانونی طور پر اپنا نام تبدیل کرنے اور پیرس منتقل ہونے کے بعد پکارا جانا پسند کرتی ہیں اور وہ ایک ایسے ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھتی ہیں جہاں ان کا مستقبل غیر یقینی ہے: کیا بچوں کی کتاب اب بھی شورش زدہ لبنانی مارکیٹ کی ترجیح ہے؟ کیا لکھنے کے موضوعات بڑوں کے خدشات کی وجہ سے چھوٹے بچوں کی عادات میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں؟ غیر ملکی زبانوں میں ویڈیوز کے حملے کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچے کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کی ثقافت کے علاقوں پر قبضہ کرتے ہیں؟

شرف الدین بیس سال قبل اس شعبے میں اپنے تجربے کے آغاز کے بعد سے بچوں کی کتابوں کے حالات میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہی ہیں اور اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ بچے کی صحت مند نشوونما اور اسکول کی کامیابی اور زندگی کے عزائم کو حاصل کرنے میں اچھی کتابوں کی اہمیت کے بارے میں والدین اور اساتذہ کی آگاہی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حقیقت کئی عوامل کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے، تخلیقی کتابیں تخلیق کرنے میں سنجیدہ مصنفین اور مصوروں کی موجودگی جو نوجوان قارئین کی عمر کے مطابق ان کی دلچسپیوں اور ضروریات کی تقلید کرتی ہے۔ دوم، پبلشنگ ہاؤسز کا پھیلاؤ جو بچوں کی کتابیں نشر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ تیسرا، ہماری سول سوسائٹی میں اداروں کا وجود بچوں میں پڑھنے کی اہمیت کو فروغ دینے اور سرکاری اسکولوں یا ثقافتی مراکز میں ان کے لئے کتابیں اور لائبریریاں فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

لیکن کتاب کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اینیل ایک سوال پوچھتی ہے: کیا کوئی مصنف کسی بچے کے لئے لکھنے کا اہل ہے؟ وہ نفی میں جواب دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بچوں کا ادب ایک ایسا جذبہ ہے جو مصنف کے پاس ہوتا ہے جس کی کمی کو تحقیق اور حوالوں سے پُر نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے لئے اعلیٰ حساسیت، ذائقہ اور بیداری کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کے اندرون سے مربوط ہوتی ہے اور لبنان میں تعلیمی تحریروں اور بچوں کے ادب کے درمیان بہت زیادہ الجھنیں پائی جاتی ہیں اور تعلیم کی کتابیں عام موضوعات کے ساتھ ملی ہوئیں ہوتی ہیں جیسے کہ لڑکیوں کا بدمعاش ہونا اور بااختیار بنانا جو بہت اہم ہے اور اس کا ازالہ بے حد ضروری ہے بس فرق یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں اور کس ذہنیت سے بات کریں۔(۔۔۔)

منگل 16 صفر المظفر 1444ہجری -  13 ستمبر   2022ء شمارہ نمبر[15995]     


مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے
TT

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے

مارکیز کے فرزند: میرے والد میرے اور دوسرے کے لئے تھے
الشرق الاوسط کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کولمبیا کے مشہور ناول نگار گیبریل مارکیز کے بیٹے روڈریگو گارسیا نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی موجودگی کی شدت اور ان کی بے پناہ شہرت سے کبھی کوئی تکلیف محسوس نہیں کی ہے تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سب کا ان پر بعد میں اثر ہوا ہے کیونکہ اگر ان کے والد کم مشہور اور کامیاب ہوتے تو وہ اسے دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کرتے، لیکن وہ کچھ بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں اور وہ اس بات کی تاکید بھی کر رہے ہیں کہ میرے والد میرے لیے اور دوسروں کے لیے برابر تھے۔

روڈریگو نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ عنوان اپنے والدین کو الوداع کہنا ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے آخری ہفتے اپنے والد کے ساتھ گزارے ہیں جن کا انتقال 2014 میں ہوا ہے اور انہوں نے آخری سال بھی اپنی والدہ کے ساتھ ان کی موت سے پہلے گزارا ہے اور اس مدت میں انہوں نے اپنے والدین کو الوداع کرنے کے معنی کو طویل اور گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے اور اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب تک وہ میرے خیالوں میں موجود نہ ہوں اور ان کی موت کا مطلب کسی چیز کا خاتمہ نہیں ہے۔(۔۔۔)

اتوار  27 جمادی الآخر 1443 ہجری  - 30  جنوری  2022ء شمارہ نمبر[15769]