ترکی کی 3 اپوزیشن جماعتیں مشترکہ پارلیمانی گروپ بنانے پر متفق

ترک اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی آرکائیو تصویر (اے ایف پی)
ترک اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی آرکائیو تصویر (اے ایف پی)
TT

ترکی کی 3 اپوزیشن جماعتیں مشترکہ پارلیمانی گروپ بنانے پر متفق

ترک اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی آرکائیو تصویر (اے ایف پی)
ترک اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی آرکائیو تصویر (اے ایف پی)

ترکی کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والی حزب اختلاف کی سب سے بڑی تین ترک جماعتوں، جو کہ "ریپبلکن پیپلز" پارٹی کی فہرست میں شامل ہیں،  نے ایک مشترکہ پارلیمانی گروپ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

"جمہوریت اور ترقی" پارٹیوں کی سربراہی علی باباجان، "فیوچر" پارٹی جس کی سربراہی احمد داؤد اوغلو کر رہے ہیں، اور "خوشی" پارٹی جس کی سربراہی تمل کارامولا اوغلو کر رہے ہیں نے ایک پارلیمانی گروپ بنانے کے معاہدے کا اعلان کیا ہے، جو کہ 14 مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں تین جماعتوں کی 35 نشستیں جیتنے کے بعد ہے، جن میں 15 نشستیں "جمہوریت اور ترقی" کی ہیں اور 10 نشستیں "فیوچر" اور 10 نشستیں "خوشی" پارٹی کی ہیں۔

تینوں جماعتوں کے رہنماؤں نے جمعہ کو انقرہ میں "فیوچر" پارٹی کے سیکریٹریٹ میں ملاقات کی اور ملاقات کے بعد داؤد اوغلو نے "ٹوئٹر" پر لکھا: "ہم نے اہنی ملاقات کے دوران حالیہ صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا اور ہم نے سیاسی میدان میں تعاون کے طریقہ کار اور خاص طور پر پارلیمنٹ میں مشترکہ پارلیمانی بلاک کی تشکیل کے بارے میں بھی مشاورت کی۔" (...)

پیر - 01 ذی الحج 1444 ہجری - 19 جون 2023ء شمارہ نمبر [16274]



پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
TT

پاکستان میں انتخابات مکمل... اور نواز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے امکانات

نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)
نواز شریف کل جمعرات کو لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے (اے پی)

پاکستان میں کل عام انتخابات مکمل ہوئے، جب کہ حکومت کی طرف سے انتخابات کے عمل کے دوران سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل فون سروس منقطع کرنے کے فیصلے کے باوجود بھی تشدد اور دھاندلی کے شبہات سے پاک نہیں تھے۔

مبصرین نے توقع کی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید اور ان کی پارٹی "تحریک انصاف" اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مباحثوں کے زیر سایہ کمزور انتخابی مہم کے بعد رائے شماری میں شرکت کرنے والوں کی شرح میں کمی دیکھی جائے گی، جیسا کہ 128 ملین ووٹرز نے وفاقی پارلیمنٹ کے لیے 336 نمائندوں کو اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرنا تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ان کی پارٹی "پاکستان مسلم لیگ ن" کو سب سے خوش قسمت شمار کیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اکثریت حاصل نہیں کر پاتے ہیں، جس کا امکان ہے، تو وہ ایک یا زیادہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر اتحاد کے ذریعے اقتدار سنبھال لیں گے، جس میں لالاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ان کی خاندانی جماعت "پاکستان پیپلز پارٹی" بھی شامل ہے۔

مبصرین نے کل کے انتخابات کو "صورتحال بدل کر"  2018 کے انتخابات سے تشبیہ دی ہے، کیونکی اس وقت نواز شریف کو متعدد مقدمات میں بدعنوانی کے الزام میں سزا ہونے کی وجہ سے امیدواری سے باہر کر دیا گیا اور عمران خان فوج کی حمایت اور عوامی حمایت کی بدولت اقتدار میں آئے۔ دوسری جانب، نواز شریف نے لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اقتدار میں واپسی کے لیے فوج کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہے۔ (...)

جمعہ-28 رجب 1445ہجری، 09 فروری 2024، شمارہ نمبر[16509]