امریکی فوجی کی رہائی کے باوجود واشنگٹن کو پیانگ یانگ کے ساتھ تعلقات میں کوئی "پیش رفت" نظر نہیں آ رہی

12 جون 2018 کو سنگاپور کے سینٹوسا جزیرے کے کیپیلا ہوٹل میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور شمالی کوریا کے قومی پرچم (رائٹرز)
12 جون 2018 کو سنگاپور کے سینٹوسا جزیرے کے کیپیلا ہوٹل میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور شمالی کوریا کے قومی پرچم (رائٹرز)
TT

امریکی فوجی کی رہائی کے باوجود واشنگٹن کو پیانگ یانگ کے ساتھ تعلقات میں کوئی "پیش رفت" نظر نہیں آ رہی

12 جون 2018 کو سنگاپور کے سینٹوسا جزیرے کے کیپیلا ہوٹل میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور شمالی کوریا کے قومی پرچم (رائٹرز)
12 جون 2018 کو سنگاپور کے سینٹوسا جزیرے کے کیپیلا ہوٹل میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور شمالی کوریا کے قومی پرچم (رائٹرز)

"فرانسیسی پریس ایجنسی" کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اسے شمالی کوریا میں زیر حراست ایک امریکی فوجی کی رہائی کے باوجود پیانگ یانگ کے ساتھ کوئی سفارتی "پیش رفت" نظر نہیں آتی۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا: "میں اسے کسی پیش رفت کے اشارے کے طور پر نہیں دیکھتا۔" "میرے خیال میں یہ ایک الگ کیس ہے۔"

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ امریکی فوجی ٹریوس کنگ چین کے سرحدی شہر داندونگ سے آنے والے جنوبی کوریا میں امریکی اوسان اڈے پر رکنے کے بعد "امریکہ کی طرف جا رہا" تھا کہ جب شمالی کوریا نے گزشتہ جولائی میں غیر قانونی طور پر جنوبی کوریا سے اپنی سرزمین میں داخل ہونے والے سولجر کنگ کو وہاں سے بے دخل کر دیا تھا۔ امریکی ترجمان نے مزید کہا کہ فوجی نے شمالی کوریا اور چین کی سرحد عبور کی، جہاں اس کا استقبال بیجنگ میں تعینات امریکی سفیر نکولس برنز نے کیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے فوجی کی رہائی کے بدلے پیانگ یانگ کو "کوئی رعایت" کی پیش کش نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم نے انہیں کچھ نہیں دیا اور ہم نے اس کی واپسی کے بدلے کوئی رعایت نہیں دی۔"

جمعرات-13 ربیع الاول 1445ہجری، 28 ستمبر 2023، شمارہ نمبر[16375]



بائیڈن فلسطینیوں کو "انسانی ہمدردی" کی بنا پر ملک بدری سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں

امریکی صدر جو بائیڈن (ای پی اے)
امریکی صدر جو بائیڈن (ای پی اے)
TT

بائیڈن فلسطینیوں کو "انسانی ہمدردی" کی بنا پر ملک بدری سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں

امریکی صدر جو بائیڈن (ای پی اے)
امریکی صدر جو بائیڈن (ای پی اے)

وائٹ ہاؤس کے اعلان کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ میں مقیم فلسطینیوں کو ملک بدری سے 18 ماہ کے لیے قانونی تحفظ فراہم کر دیا ہے، جب کہ بائیڈن کو انتخابی سال میں غزہ پر اسرائیلی حملے کی حمایت کے سبب بڑھتے ہوئے غصے کا بھی سامنا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ بائیڈن نے غزہ کی پٹی میں "جاری تنازعہ اور انسانی ضروریات کی روشنی میں" فلسطینیوں کی ملک بدری پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔

"نیویارک ٹائمز" نے اطلاع دی ہے کہ اس قانون کے اطلاق سے تقریباً چھ ہزار فلسطینی مستفید ہونگے، کیونکہ تحفظ کا یہ قانون تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک میں بحران کی صورت میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رہنے کی اجازت فراہم کرتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب وائٹ ہاؤس غزہ میں اسرائیلی جنگ کے سبب رائے دہندگان کے بڑھتے ہوئے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس سے بائیڈن کے نومبر کے انتخابات میں دوسری بار جیتنے کے امکانات میں کمی واقع ہوگی۔

بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے حال ہی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد والی ریاست مشی گن کا دورہ کیا، تاکہ مقامی کمیونٹی رہنماؤں سے جنگ کے بارے میں ان کے خدشات کے بارے میں بات کی جا سکے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسے وقت میں بھی آیا ہے کہ جب ڈیموکریٹک صدر کو امیگریشن پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر میکسیکو سے تارکین وطن کی بڑی تعداد غیر قانونی طور پر جنوبی سرحد عبور کر کے امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔(...)

جمعرات-05 شعبان 1445ہجری، 15 فروری 2024، شمارہ نمبر[16515]