کل دنیا بھر کے رہنما "بیلٹ اینڈ روڈ" کے تیسرے فورم میں شرکت کے لیے بیجنگ پہنچے، جس کا آغاز چینی صدر شی جن پنگ نے کیا، تاکہ یہ بین الاقوامی سطح پر ان کے ملک کی پوزیشن کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مخصوص علامت بنے۔ لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری غزہ کی جنگ اس فورم کی کارروائی پر چھائی رہے گی، جب کہ اس فورم کی سرگرمیوں کا آغاز آج منگل کے روز سے شروع ہو رہا ہے۔ جب کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی شرکت ان میں سب سے نمایاں رہے گی، کیونکہ ان کی افواج نے گزشتہ سال یوکرین پر جب سے حملہ کیا ہے اور اس کے بعد سے ماسکو کو مغرب کی جانب سے تنہائی کا سامنا ہے یہ ان کا کسی بڑی طاقت کی جانب پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
کریملن کی جانب سے کل اعلان کیے گئے بیان کے مطابق، پوٹن کل (بدھ کے روز) بیجنگ میں فورم کے ضمن میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کریں گے اور اس دوران ہونے والی بات چیت میں بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر خصوصی توجہ دیں گے۔
امید ہے کہ پوٹن، جو کہ بڑی بڑی روسی کمپنیوں کے سربراہوں کے ہمراہ بیجنگ جا رہے ہیں، وہ اس فورم سے خطاب بھی کریں گے۔
پوٹن نے چین کے سرکاری چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں بیجنگ کے ساتھ تعلقات اور "بیلٹ اینڈ روڈ" اقدام سے دونوں ممالک کو حاصل ہونے والے "مشترکہ فوائد" کا خیرمقدم کیا۔
جب کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کل بیجنگ پہنچنے والے پہلے لوگوں میں سے تھے، جہاں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے بات چیت کی اور انہوں نے پوٹن کو فورم میں بطور "چیف گیسٹ" کے مدعو کرنے پر چین کا شکریہ ادا کیا، جیسا کہ اس بات چیت کو ماسکو کی جانب سے نشر کیا گیا ہے۔ لاوروف نے کہا کہ چین اور روس کے درمیان تعلقات کو "فروغ" مل رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں رہنما "جب ملاقات کریں گے تو اس پر مکمل طور پر بات چیت کریں گے۔" دوسری جانب، وانگ نے زور دے کر کہا کہ چین "بیلٹ اینڈ روڈ" اقدام کے لیے روسی حمایت کو "سراہتا ہے"۔ (...)
منگل-02 ربیع الثاني 1445ہجری، 17 اکتوبر 2023، شمارہ نمبر[16394]