لیبیا میں دبیبہ حکومت کے اقتدار کی بقا کو چیلنجز کا سامنا

دبیبہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران (اتحاد حکومت)
دبیبہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران (اتحاد حکومت)
TT

لیبیا میں دبیبہ حکومت کے اقتدار کی بقا کو چیلنجز کا سامنا

دبیبہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران (اتحاد حکومت)
دبیبہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران (اتحاد حکومت)

گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی سیکورٹی اور سیاسی تبدیلیوں نے عبوری "قومی اتحاد" کی حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ کے اقتدار کو درپیش چیلنجوں کو دوگنا کر دیا ہے۔

سیاست دانوں کے اندازوں کے مطابق، "6+6" کمیٹی کے بارے میں جو خبریں گردش کر رہی ہیں وہ ان چیلنجوں میں سرفہرست ہے جو آئندہ انتخابی قوانین کی تیاری کی خاطر 6 ماہ کی مدت کے لیے ایک چھوٹی حکومت بنانے پر اتفاق کرنے کے لیے درپیش ہیں، جب کہ دارالحکومت میں مسلح عناصر کے درمیان جاری تنازعات ان کے علاوہ ہیں۔

ریاستی سپریم کونسل کے ایک رکن ابو القاسم قزیط نے کہا کہ دبیبہ کے سامنے سب سے سنگین چیلنج" کمیٹی کے اراکین کی جانب سے آنے والے انتخابات کے اجراء کی نگرانی کے لیے ایک چھوٹی حکومت بنانے پر اتفاق کے لیے بات کرنا ہے۔

قزیط نے "الشرق الاوسط" کو بیان دیتے ہوئے اس بات کو مسترد کیا کہ "اقوام متحدہ کے مشن اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے، اور یہاں تک کہ علاقے میں دببیبہ کے اتحادیوں کے علاوہ خاص طور پر ترک صدر رجب طیب اردگان کی طرف سے دبیبہ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے (6+6) کالنگ کمیٹی کے نتائج کی سخت مخالفت ہوگی۔" (...)

جمعہ - 13 ذی القعدہ 1444 ہجری - 02 جون 2023ء شمارہ نمبر [16257]



عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
TT

عراق میں 2025 کی پارلیمنٹ کے نقشے میں السودانی کے لیے ایک اہم حصہ

نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)
نوری المالکی اور عمار الحکیم گزشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے دوران (اے ایف پی)

عراق میں حکمران اتحاد نے 2025 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے شیعہ نشستوں کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور تین معتبر ذرائع کے مطابق، تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیاع السودانی ایک تہائی سے زیادہ شیعہ نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی قیادت کریں گے۔

ان ذرائع میں سے ایک نے "الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک" کے ذریعے کیے گئے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شیعہ جماعت کو اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی جو اکتوبر 2023 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ جب کہ السودانی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی اگلی پارلیمنٹ میں تقریباً 60 نشستیں ملنے والی ہیں۔

دریں اثنا، مطالعہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ مہینوں کے دوران شیعہ قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ذریعہ نے کہا کہ "فریم ورک، السودانی کے اس وزن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔" مطالعہ کے مطابق، السودانی کے اتحاد میں "گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 3 گورنرز شامل ہیں جو کوآرڈینیشن فریم ورک کی چھتری سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔" تیسرے ذریعہ نے وضاحت کی کہ السودانی کے دیگر اتحادی مختلف قوتوں کا مرکب ہیں، جو "تشرین" احتجاجی تحریک سے ابھرے ہیں، یا ایسی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جن کی کبھی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی، یا وہ ایران کی قریبی پارٹیاں ہیں جنہوں نے مقامی انتخابات میں شاندار نتائج حاصل کیے تھے۔ (...)

جمعہ-06 شعبان 1445ہجری، 16 فروری 2024، شمارہ نمبر[16516]