کل بدھ کے روز شام کے شمالی شہر حلب کے مشرقی دیہی علاقوں میں روسی اور شامی افواج کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں کا آغاز ہوا۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی یہ مشقیں شام میں روسی-امریکی کشیدگی میں اضافے اور شام میں ایران سے منسلک ملیشیا تعینات کرنے والے مقامات پر مسلسل اسرائیلی بمباری کے تناظر میں سامنے آئی ہیں، جب کہ ماسکو کو بھی اس ملیشا پر اعتراض ہے۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے، روس کی جانب سے اچانک شامی روسی فوجی مشقوں کے بارے میں اعلان کرنا گویا امریکہ اور اسرائیل کو "پیغام" دینے کے مترادف ہے۔
کل "شام میں انسانی حقوق کی رصدگاہ" نے اشارہ کیا کہ حلب کے مشرقی دیہی علاقوں میں فضائیہ اور الیکٹرانک وارفیئر فورسز کی شرکت کے ساتھ "مصنوعی اہداف" کو نشانہ بناتے ہوئے شامی-روسی مشقوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ اسی کے ساتھ شام کے شہر الباب اور اس کے اطراف کی فضائی حدود میں روسی طیاروں کی جانب سے تھوموبارک بم اور تربیتی میزائل گرائے گئے۔
شام میں روسی وزارت دفاع کے مصالحتی مرکز کے نائب سربراہ اولیگ گورینوف نے کہا کہ، ان مشقوں کا مقصد ہوا بازی اور فضائی دفاع کے مشترکہ عمل کو فروغ دینا ہے۔ ان کی گفتگو میں شامی فضائی حدود میں امریکی "خلاف ورزیوں" اور شامی فوج کی فضائی حملوں کو پسپا کرنے کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے مسائل کے بارے میں بات کی گئی اور اشارہ کیا گیا کہ مشقیں تل ابیب اور واشنگٹن کے حالیہ اقدامات کا براہ راست ردعمل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک "امریکہ کی سرپرستی میں نام نہاد بین الاقوامی انسداد دہشت گردی اتحاد کی طرف سے ڈرون پروازوں سے متعلق غیر تنازعات کے پروٹوکول کی منظم خلاف ورزیوں کے بارے میں فکر مند ہے۔"
جمعرات 18 ذی الحج 1444 ہجری - 06 جولائی 2023ء شمارہ نمبر [16291]