واشنگٹن کا جنگ کے خاتمے میں "تیزی" لانے کے لیے دباؤ

جنگ کے "اگلے دن" کے بارے میں امریکہ-اسرائیل-فلسطین اختلافات... اور غزہ میں "سخت ترین لڑائیوں" کا مشاہدہ

کل غزہ کے جنوب میں رفح میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے نقل مکانی کے دوران ایک ٹریکٹر پر سوار فلسطینی (روئٹرز)
کل غزہ کے جنوب میں رفح میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے نقل مکانی کے دوران ایک ٹریکٹر پر سوار فلسطینی (روئٹرز)
TT

واشنگٹن کا جنگ کے خاتمے میں "تیزی" لانے کے لیے دباؤ

کل غزہ کے جنوب میں رفح میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے نقل مکانی کے دوران ایک ٹریکٹر پر سوار فلسطینی (روئٹرز)
کل غزہ کے جنوب میں رفح میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے نقل مکانی کے دوران ایک ٹریکٹر پر سوار فلسطینی (روئٹرز)

کل منگل کے روز غزہ میں اسرائیلی فوج اور تحریک "حماس" کے درمیان شدید ترین لڑائیاں دیکھنے میں آئی اور یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب اسرائیلیوں، امریکیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد "اگلے دن" کے حوالے سے اختلافات واضح طور پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔

تل ابیب میں سیاسی ذرائع نے بتایا کہ امریکی انتظامیہ اسرائیل پر "ہلکا سا دباؤ" ڈال رہی ہے تاکہ وہ تیزی سے ہفتوں کے اندر جنگ کو ختم کر کے جنگ کے بعد کے منصوبے کی منظوری میں تاخیر کو ختم کرے، جب کہ اسرائیلی "مہینوں تک جاری رہنے والی طویل جنگ" کے بارے میں مسلسل بات کرتے رہتے ہیں۔

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کے قومی سلامتی کے مشیر فل گورڈن کی صدارت میں جس امریکی وفد کل رام اللہ جانے سے پہلے اسرائیل کا دورہ کیا، اس نے "اگلے دن" کے حوالے سے امور پر توجہ مرکوز کی۔

سیاسی ذرائع نے کہا: امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر زور دے رہی ہے کہ وہ جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے لیے ایک سنجیدہ وژن تیار کریں جس میں "حماس" کے متبادل کے طور پر فلسطینی اتھارٹی کی کسی بھی صورت دوبارہ اقتدار میں واپسی کو مدنظر رکھا جائے۔ اگرچہ واشنگٹن، رام اللہ اور تل ابیب کے درمیان معاملات میں کچھ اہداف کسی حد تک آپس میں ملتے ہیں، لیکن درحقیقت امریکی انتظامیہ کو "اگلے دن" کے بارے میں اٹھنے والے بہت سے سوالات کے تل ابیب اور رام اللہ کی جانب سے آسان جوابات نہیں ملتے اور جب چیزیں اپنے آخری ہدف کی جانب آتی ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ ہر ایک اپنا ہی راگ آلاپ رہا ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ ایک "سرگرم" فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے اور غزہ پر حکمرانی کرے، جب کہ اتھارٹی چاہتی ہے کہ وہ دو ریاستی حل کی جانب لے جانے والے ایک جامع معاہدے کے تحت حکمرانی کرے اور جب کہ اسرائیل اپنی موجودہ حکومت کے ساتھ، نہ دو ریاستی حل چاہتا ہے، نہ ہی فلسطینی ریاست کا قیام، نہ موجودہ اتھارٹی اور نہ ہی تبدیل ہونے والی اتھارٹی چاہتا ہے، جیسا کہ اس کے حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ (...)

بدھ-22 جمادى الأول 1444 ہجری، 06 دسمبر 2023، شمارہ نمبر[16444]



مصر اور ترکیا "نئے صفحہ" کا آغاز کر رہے ہیں

سیسی قاہرہ میں اردگان سے ملاقات کرتے ہوئے (مصری ایوان صدر)
سیسی قاہرہ میں اردگان سے ملاقات کرتے ہوئے (مصری ایوان صدر)
TT

مصر اور ترکیا "نئے صفحہ" کا آغاز کر رہے ہیں

سیسی قاہرہ میں اردگان سے ملاقات کرتے ہوئے (مصری ایوان صدر)
سیسی قاہرہ میں اردگان سے ملاقات کرتے ہوئے (مصری ایوان صدر)

مصر اور ترکیا نے دوطرفہ تعلقات کی راہ میں ایک "نئے دور" کا آغاز کیا اور کل (بروز بدھ)، قاہرہ نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان کے درمیان ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی۔ جب کہ اردگان نے گذشتہ 11 سال سے زائد عرصے میں پہلی بار مصر کا دورہ کیا ہے۔

السیسی نے اردگان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ "یہ دورہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا صفحہ کھولتا ہے، جو ہمارے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دے گا۔" انہوں نے آئندہ اپریل میں ترکی کے دورے کی دعوت قبول کرنے کا اظہار کیا۔

جب کہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دوطرفہ اور علاقائی سطح پر مشترکہ تعاون کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوئی۔

اردگان نے وضاحت کی کہ بات چیت میں غزہ کی جنگ سرفہرست رہی۔ جب کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت پر "قتل عام کی پالیسی اپنانے" کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ غزہ پر بمباری نیتن یاہو کی طرف سے ایک "جنونی فعل" ہے۔ دوسری جانب، السیسی نے زور دیا کہ انہوں نے ترک صدر کے ساتھ غزہ میں "جنگ بندی" کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔ (...)

جمعرات-05 شعبان 1445ہجری، 15 فروری 2024، شمارہ نمبر[16515]