مولانا اشرفی نے «الشرق الوسط» سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ایک بڑی مصیبت جس سے اسلامی دنیا دوچار ہے وہ ایرانی دخل اندازی ہے۔

صدر علمائے پاکستان: سعودی عرب مسلمانوں کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کچھ بھی کر رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب عالم اسلام کی روح ہے-

مولانا اشرفی نے «الشرق الوسط» سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ایک بڑی مصیبت جس سے اسلامی دنیا دوچار ہے وہ ایرانی دخل اندازی ہے۔
TT

مولانا اشرفی نے «الشرق الوسط» سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ایک بڑی مصیبت جس سے اسلامی دنیا دوچار ہے وہ ایرانی دخل اندازی ہے۔

مولانا اشرفی نے «الشرق الوسط» سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ایک بڑی مصیبت جس سے اسلامی دنیا دوچار ہے وہ ایرانی دخل اندازی ہے۔

لمائے پاکستان كونسل کے صدر مولانا محمد طاہر اشرفی نے کہا کہ: جو کچھ سعودی عرب مسلمان کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے کر رہا ہے اس سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ سعودی عرب عالم اسلام کی روح ہے-

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودیہ کے مابین تعلقات ہر سطح پر بلند پایہ ہیں- پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سیاسی، ثقافتی، تعلیمی اور دینی شعبہ جات میں باہمی تعامل اور تعلقات گذشتہ صدی میں ستر کی دہائی سے ہیں- انہوں نے پر زور انداز میں کہا کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی ہمارے ملک پاکستان اور اسکے علماء کو جو حمایت حاصل ہے اسکا کوئی انکار نہیں کر سکتا- اسی وجہ سے ہم سعودی عرب کے تمام فیصلوں میں اسکے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔

          چند روز قبل اشرفی سے «الشرق الاوسط» نے مصری دار الافتاء کی جانب سے قاہرہ میں منعقدہ ایک کانفرنس کے اختتام پر ان سے ملاقات کی- جس دوران انہوں نے ایران پر حملہ کرتے ہوئے جارحانہ انداز میں کہا کہ ” ایک بڑی مصیبت جس نے اسلامی دنیا کو آ گھیرا ہے وہ اسلامی ممالک میں ایران کی دخل اندازی ہے”- انہوں نے عرب ممالک اور خاص طور سے سعودی عرب میں اسکی دخل اندازی کو "مکمل طور پر مسترد” کرتے ہوئے کہا کہ تہران خطے میں بحرانوں کو مزید ہوا دینا چاہتا ہے اور وہ مذہب کے نام پر اختلاف اور نفاق کے بیج بو رہا ہے- اسی طرح اسلامی دنیا اور سنی ممالک میں شیعیت کے فروغ سے تفرقہ اور خون کی ندیاں بہا نا ہے-

 مولانا اشرفی نے کہا کہ: "دہشت گردوں کا خاتمہ باہمی صف بندی اور کوشسوں کو منظم کرنے سے ممکن ہے نہ کہ تفرقہ سے جیسا کہ آج ہمارے اکثر اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے”- انہوں نے امت مسلمہ سے مطالبہ کیا کہ پوری امت ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر یک آواز ہوں جیسا کہ "عرفات اور منیٰ ” میں شیطان اور اسکے چیلوں کی راہوں کو روکنے کیلئے جمع ہوتے ہیں۔

          علمائے پاکستان كونسل کے صدر نے مطالبہ کیا کہ نوجوانوں کو دہشت گرد "داعش” کے افکار سے بچانے کیلئے انہیں واضح پیغام دینا ہوگا کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی فکری اتحاد تشکیل دینا ہوگا جیسا کہ ہم نے نوجوانوں کی حفاظت کی خاطر سعودیہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف اسلامی عسکری اتحاد بنایا۔

انٹرویو میں اسکے علاوہ جو اہم باتیں سامنے آئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:-

* آپکے خیال میں۔۔۔ حالیہ وقت میں جبکہ بہت سے ممالک میں دہشت گردی اور تشدد پسند جماعتیں پھیل رہی ہیں آپ مملکت سعودیہ کا اسلامی دنیا سے تعلقات کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

مملکت سعودی عرب کا اسلامی دنیا کے ساتھ تعلق "جسم اور روح کا ہے "، اگر اسلامی دنیا سے سعودیہ کے کردار کو نکال دیا جائے تو ایسے ہی ہے جیسے جسم سے روح کو نکال دیا جائے۔۔۔کیونکہ مملکت "اسلامی دنیا کی روح اور مسلمانوں کا قبلہ ہے”،اور اہل عقل ودانش کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اسکا انکار کر یں اور سعودیہ مشرق ومغرب میں چہار جانب جو مسلمانوں کی حمایت کرتی ہے وہ اس بات کی تصدیق ہے کہ مملکت سعودی عرب اسلامی دنیا کی روح ہے۔۔۔ چنانچہ سعودیہ کے علاقائی ممالک سے تعلقات باہمی محبت ویگانگی کے بھی ہیں جسکی مثال خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے تمام نیک اور اچھے کاموں میں امداد، پوری دنیا میں اسلامی اقلیتوں کی باعزت امداد اور امتِ مسلمہ کے تمام مسائل میں انکی حمایت اور امداد ہے۔

آپکے ملک پاکستان اور سعودیہ کے مابین تعلقات کے بارے میں۔۔۔اور حالیہ وقت میں مصر اور سعودیہ کے مابین کیوں بعض لوگ پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں؟

پاکستان اور سعودیہ کے مابین تعلقات ہر سطح پر بلند پایہ ہیں، پاکستان اور سعودی کے مابین کئی شعبہ جات جیسے سیاست، ثقافت، تعلیم اور دینی شعبہ جات میں مشترکہ تعاونی تعلقات گذشتہ صدی میں ستر کی دہائی سے ہیں اور سعودیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کھلے اور برادرانہ ہیں، خادم حرمین شریفین کی جانب سے پاکستان اور پاکستانی علمائے کرام کی حمایت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا بلکہ ہم اسکی بہت قدر کرتے ہیں، اسی بناء پر ہم سعودیہ کے تمام نظریات سے اتفاق کرتے ہیں اور اسکے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، سعودیہ نے پاکستان کی ہر آنے والے مشکل وقت میں مدد کی ہے چنانچہ اسکا فلاحی کاموں میں، اسلام اور مسلمانوں کے مسائل کے دفاع میں اہم کردار رہا ہے، اور اِنسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کیلئے متاثرہ افراد کے ساتھ ہوتا ہے ،اسکے علاوہ سعودیہ کی جانب سے انسانی بنیادوں پر قدرتی آفات، جنگ اور مسلحہ جھڑپوں سے متاثرہ مختلف قوموں کی امداد کی جاتی ہے۔۔۔

جہاں تک مصر کا سعودیہ کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو وہ باہمی برادرانہ ہیں جس کی مضبوط جڑوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو یہ باتیں کہی جا رہی ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے یہ انکے درمیان تفرقہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

 آپ نے دار الافتاء کی جانب سے مغرب ميں مسلم اقلیتوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے اور تشدد پسندی کے خلاف جنگ کے موضوع پر منعقد کانفرنس میں شرکت کی۔۔۔تو یہ کانفرنس کیسا رہا ؟

امت کو درپیش مسائل خاص طور سے تشدد اور انتہا پسندی کے گروپوں کی جانب سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اعتدال پسندی کے نقطہ نظر پر چلنے کی ضرورت ہے، امت ہمیشہ الازہر اور دار الافتاء کی طرف صحیح راستے کی وضاحت اور دین کو بیچنے والے باطل گروہوں کو بے نقاب کرنے والے بیانات کی منتظر رہتی ہے.

 چنانچہ اب اعتدال پسند علماء کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے خلاف پہلے کی بہ نسبت زیادہ کام کرنا ہوگا۔

*آپکی رائے کے مطابق۔۔۔ امتِ اسلامیہ دہشت گرد جماعتوں پر کیسے کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔

امت کو چاہیئے کہ وہ تمام تنازعات اور فتنوں کو جس سے تشدد، انتہا پسندی، اور خونریزی جنم لے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر، ایک رائے پر جمع ہوں کیونکہ فرقہ بندی اور باہمی انتشار کی وجہ سے ہم تنہائی اور دشمنی تک پہنچ چکے ہیں، اس سے آپس میں طویل عداوت وکشیدگی کو مزید ہوا ملی

اور دشمنوں نے ہمارے آپس میں فتنوں کی آگ بھڑکائ، اور یہی دشمن چاہتے ہیں کہ رہی سہی وحدت ملت کو بھی ختم کر دیا جائے جو کہ ہماری امت کی قوت کا مصدر اور عزت کا سبب تھا، دہشت گرد سب برابر ہیں ان میں کسی اچھے یا برے کی تمیز نہیں کی جا سکتی اور اگر کوئی شخص یا جماعت یا کوئی ملک انکی پشت پناہی کرے تو وہ بھی دہشت گرد ہے جنکا خاتمہ ہم باہمی ہم آہنگی اور کوشسوں کو منظم کرکے کر سکتے ہیں نہ کہ باہمی انتشار سے جیسا کہ حالیہ وقت میں اکثر اسلامی ممالک میں دیکھا جا ساکتا ہے۔

* لیکن حالیہ وقت میں مسلمان واضح طور پر منقسم ہیں۔۔۔اسکا علاج کیسے ممکن ہے؟

ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں، انکی ایک آواز ہو اور ایک ہی صف ہو جیسا کہ حج کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں اور رسول اللہ ﷺ کے شہر میں مسجد نبوی میں جمع ہوتے ہیں اور پوری دنیا سے آنے والوں کی ایک ہی صف ہوتی ہے قطع نظر اسکے کہ ان میں زبان، لہجے، رنگ اور رسم ورواج کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے وہ سب اس عبادت میں جمع ہوتے ہیں کہ جس سے دلوں کی خوشی واطمنان میں اضافہ اور امت کیلئے عزت ووقار میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ امت اسی طرح متحد ہو جس طرح "عرفات اور منیٰ” میں جمع ہوتی ہے تاکہ ہم اپنا وقار بنا سکیں اور اپنے عروج کو بحال کر سکیں، اسکے علاوہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کریں جو "شیطان اور اسکے چیلوں کے دروازے” کھولنے کی وجہ سے گم ہو چکا ہے، جو کہ ابتداء میں عام فہم الفاظ سے فتنہ وفساد پھیلانے میں مہارت رکھتے ہیں اسکے بعد فرزندان امت اسلامیہ کے مابین تعلقات کو خراب کرکے انکی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اور کشیدگی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔

*چند ممالک جیسا کہ ایران کی کوشش ہے کہ خاص طور پر سعودیہ سے کشیدگی پیدا کرے اور سنی ممالک میں شیعیت کو فروغ دے؟

درحقیقت ایران خطے میں مزید بحران پیدا کر نا چاہتا ہے ۔۔ اور اس بناء پر "ایک بڑی مصیبت جس نے اسلامی دنیا کو آ گھیرا ہے وہ اسلامی وعرب ممالک میں ایرانی دخل اندازی ہے جو کہ دین کے نام پر باہمی اختلاف اور نفاق کے بیج بو رہا ہے”، عرب ممالک اور خاص طور سے سعودیہ میں ایرانی دخل اندازی مکمل طور پر مسترد ہے کیونکہ عرب ممالک کو اپنے تمام مسائل پر قانونی بالادستی حاصل ہے، پہلے بھی گذشتہ حج کے دنوں میں ایران نے دخل اندازی کے ذریعہ بے چینی اور اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی، اور ہم نے حج کے مسئلہ کو عالمی ایشو بنا نے کی ایرانی دعویٰ کو مسترد کیا،

علاوہ ازیں ہم اسلامی ممالک اور سنی ممالک میں شیعہ دخل اندازی اور اسکے فروغ کو مسترد کرتے ہیں جسکی وجہ سے تفرقہ بازی اور خون ریزی واقع ہوتی ہے

 مگر ایرانی سپریم لیڈر علی خامنئی نے گذشتہ حج پر سیاست کرنے کی کوشش کی۔۔۔آپ نے انکے دعووں کا کیسے جواب دیا

 اس وقت خامنئی کی طرف سے سعودیہ پر جو دعوی کیا گیا وہ جھوٹے الزامات تھے جس پر ایران کی جانب سے حج پر سیاست کرنے اور اسے سیاسی حساب چکانے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔۔۔ اور اس وقت میں نے پاکستانی علماء سے کہا تھا کہ: "ایران دنیا بھر سے آنے والے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کیلئے سعودی خدمات کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسکی خدمات کا انکار صرف ناشکرا ہی کر سکتا ہے۔

 * پاکستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔۔۔ آپکے اس میں کیا اقدامات ہیں؟

 ہم نے ایسی فکر کے حامل افراد کو اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاکر قائل کرنے کی کوشش کی، ان میں سے کچھ قائل ہوگئے اور باقی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کا آغاز کیا۔ تمام دہشت گرد جو پاکستانی سرزمین پر پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب پاکستانی نہیں ہیں بلکہ یہ افغانی جہادی ہیں جن میں امریکی، برطانوی اور عرب وغیرہ کے لوگ شامل ہیں، جو کہ 30 سال سےپاکستان میں رہ رہے تھے اور 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد دہشت گرد قرار پائے، اور وہ دہشتگردی کے آلہ کار تھے، انکے خلاف مسلسل کاروائیوں کے نتیجے میں بعض مارے گئے اور بعض پاکستان سے بھاگ گئے۔

 * تشدد پسند جماعتیں جن میں سرفہرست "داعش” ہے اسکی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے خونی منصوبہ کی تنفیذ کیلئے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرے۔۔۔ مسلم نوجوان کو اس سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

یہ ضروری ہے کہ نوجوانوں کو واضح طور پر یقین دہانی کرائی جائے کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی اچھا یا برا ہے خواہ وہ کوئی ملک ہو یا جماعت، ضروری ہے کہ اسلامی فکری اتحاد تشکیل دیا جائے جیسا کہ ہم نے نواجوانوں اور انکی فکر کی حفاظت کی خاطر سعودیہ کی قیادت میں عسکری اتحاد بنایا تھا۔۔۔ علماء کی ذمے داری ہے کہ وہ اختلافات کو چھوڑ کر نوجوانوں کے سامنے واضح فکر پیش کریں کیونکہ نوجوانوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی ا ور سوشل میڈیا کی وجہ سے نئے نظریات ہیں چنانچہ ضروری ہے کہ انہیں آسان انداز میں قائل کیا جائے اور بات چیت کے دروازے کھولنے کیلئے ان سے بہترین ماحول میں بات کی جائے تاکہ انکے مباحثہ کے تمام نقاط سامنے آئیں اور انکی قوت کو تعمیری کاموں میں صرف کیا جائے۔

 *سعودیہ یمنیوں کو حوثیوں سے نجات دلانے کے لئے انکے ساتھ ہے اسی طرح شامی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔۔۔ آپ سعودیہ کے اس موقف کی قدر کیسے کرتے ہیں؟

ہم خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کے یمن کی قانونی حکومت کے دفاع اور شامی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے موقف کی تائید کرتے ہیں اور سعودیہ کی جانب سے اسلامی قضیوں پر جو موقف ہے وہی تمام امت اسلامیہ کا موقف ہے اور کوئی بھی یمنی عوام کی خاطر سعودیہ کی جانب سے انسانی ہمدردی اور امداد کا انکار نہیں کر سکتا، علاوہ ازیں یمن کے تنازع میں باغی حوثی ملیشیاؤں کی جانب سے بچوں کو بطور ڈھال استعمال کئے جانے پر سعودی مسلح افواج کے افراد انسانی ہمدردی کے تحت انہیں بچا رہے ہیں۔

 *دہشت گرد جماعتیں جو دین کے نام پر قتل، خونریزی اور دھماکے کو انجام دے رہی ہے اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟

تشدد پسندی اور دہشت گردی امت کے مستقبل کیلئے خطرہ ہے اور ہم نے معصوم بچوں اور عوام الناس کو اسکا نشانہ بنتے دیکھا ہے حتی کہ یہ مساجد اور عبادت گاہوں تک پہنچ چکی ہے اور ان حالات میں عالمی برادری کا ضمیر اکثر ممالک میں جاری قتل عام اور علاوہ ازیں مسلمانوں کی گلیوں میں بہنے والا خون، ہزاروں خاندانوں کی نقل مکانی اور لاکھوں افراد کی انکے ملکوں سے باہر ہجرت جیسے سانحات پر "خاموش” ہے۔

 



خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک
TT

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک
سابق سعودی وزیر عبد العزیز محی الدین خوجہ نے اپنی ڈائری میں ایسے بہت سے پہلوؤں کا انکشاف کیا ہے جن کا سامنا انہیں سفارتی، سیاسی اور میڈیا کے میدانوں میں اپنے طویل کیریئر کے دوران سامنا کرنا پڑا ہے اور الشرق الاوسط کو اس ڈائری کے نشر ہونے سے پہلے اس کی ایک کاپی ملی ہے۔
خوجہ ماسکو میں سفیر کے طور طور پر کام کرنے کے دوران اس وقت روک سے گئے جب انہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کا مشاہدہ کیا اور انہیں ترکی میں سعودی سفارتکاروں کے ساتھ پراسرار قتل کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس کے بعد انہوں نے مراکش، لبنان اور وزارت اطلاعات میں کئی سال کام کئے۔
بیروت میں "تجربہ ... ثقافت، سیاست اور میڈیا کے باہمی رابطوں" کے عنوان سے "میزیں" کے ذریعہ شائع کردہ اس کتاب میں سفیر خوجہ کے سفارتی کام کے رازوں کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات موجود ہیں اور اس کتاب میں ان ممالک میں جہاں انہوں نے کام کیا ہے وہاں کے کچھ اہم سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بھی ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے۔(۔۔۔)
جمعرات 10 رجب المرجب 1441 ہجرى - 05 مارچ 2020ء شماره نمبر [15073]