جدہ کا نیا کیفے ... کافی، آرٹ اور ثقافت

جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
TT

جدہ کا نیا کیفے ... کافی، آرٹ اور ثقافت

جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ میں "بوہو کیفے" میں سعودی گلوکار عبد اللہ العمودی کو امریکی گلوکارہ نانسی کے ساتھ مل کر گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (الشرق الاوسط)
جدہ کے کیفوں کی ایک لمبی تاریخ ہے کیونکہ وہ مسافروں کے لئے ایک پرانا اسٹیشن اور ہمیشہ آرام کرنے اور دوستوں سے ملنے کی جگہ ہوا کرتا تھا اور سعودی عرب کے "ریڈ سی دلہن" اور دیگر شہروں پر غیر ملکی زنجیروں کے حملے کے باوجود جدہ میں کیفے کو ابھی بھی مقبولیت اور برتری حاصل ہے لیکن اب "کافی شاپس" کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہے جس میں کافی، آرٹ، گلوکاری اور ثقافت کا ایک سنگم نظر آتا ہے۔
نوجوان اور خوشگوار ماحول میں شام گزارنے کے لئے الشرق الاوسط کی ٹیم نے ان میں سے ایک نئے کیفے کا دورہ کیا اور جب یہ ٹیم بوہو کیفے پہنچتی ہے تو باہر میں ہلکی سی بھیڑ نظر آتی ہے جہاں متعدد نوجوان مرد اور خواتین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور پرجوش انداز میں راحت وآرام کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں اور جب یہ ٹیم اندر پہنچی تو وہاں دلوں کو موہنے والے گانے بج رہے تھے اور ایک کونے میں چھوٹی سے جماعت مشہور گانا سننے میں مشغول تھی اور یہی اس کیفے کی مکمل داستان ہے۔(۔۔۔)
بدھ 25 جمادی الآخر 1441 ہجرى - 19 فروری 2020ء شماره نمبر [15058]


"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
TT

"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)

کسی ادیب یا فنکار کے لیے اس کے اپنے ملک میں میوزیم قائم کرنے کا خیال اپنے اندر ایک عمدہ اور خوبصورت معنی رکھتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتوں کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت کا گھر وطن کے لوگوں کو عزت و تکریم دینے کی سوچ اور ورثے کو بچانے کی فکر کے ساتھ علم اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی بین الاقوامی مثالیں ہیں، جن میں روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا "یاسنیا پولیانا" میوزیم، 1925 سے لندن میں واقع "چارلس ڈکنز" میوزیم اور امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں امریکی مصنف مارک کا گھر شامل ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں اس طرح کی مثالوں کی کمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی تعداد کم ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ثقافتی رجحان کے معیار کے سامنے ان عجائب گھروں کے کمزور پڑتے کردار اور اثر و رسوخ کو بحال اور زندہ  کیسے کیا جائے؟

اس تناظر میں "الشرق الاوسط" نے اپنی اس تحقیق میں دانشوروں اور ادیبوں کی آراء اور مصنفین کے عجائب گھروں کو زیادہ سرگرم اور اثر انگیز بنانے کے لیے ان کی تجاویز کا جائزہ لیا ہے۔

شوقی اور طحہ حسین

عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ادبی عجائب گھر موجود ہیں، جیسا کہ امیر الشعراء احمد شوقی کا میوزیم ہے، جسے "کرمہ ابن ہانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور عربی ادب کے سربراہ طحہ حسین کے لیے خاص "رامتان" ثقافتی مرکز، جب کہ نجیب محفوظ میوزیم اس ضمن میں نیا ہے۔ لیکن یہ میوزیم عام لوگوں پر اثر انداز ہونے سے دور کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی مستقبل کے منصوبے ہیں؟

احمد شوقی میوزیم کی کیوریٹر امل محمود کہتی ہیں: "وزارت سیاحت کے ساتھ ایک پروٹوکول پر دستخط کرکے اس میوزیم کو سیاحتی نقشے پر رکھا گیا ہے، جس کا مقصد خصوصی کمپنیوں کے ذریعے اس جگہ کو فروغ دینا اور وزارت تعلیم کے ساتھ دوسرے تعاون کے پروٹوکول کے علاوہ اسے اپنے سیاحتی پروگراموں میں شامل کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "میوزیم (فیس بک) پر اپنے آفیشل پیج پر یومیہ ثقافتی خدمات فراہم کرتا ہے جو امیر الشعراء کے ورثے کو متعارف کرانے سے متعلق ہے۔ میوزیم سوموار اور جمعہ کے علاوہ صبح 9:00 بجے سے شام 4:00 بجے تک کھلا رہتا ہے جس کی بہت معمولی ٹکٹ ہے۔ جب کہ ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتہ کو میوزیم کے دروازے مفت کھولتے ہیں۔ ہم تعلیمی سیزن کے دوران طلباء اور اسکالرز کا اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف شہریتوں کے حامل زائرین کی ایک بڑی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم بہت سی تخلیقی ورکشاپس، فنکارانہ ملاقاتیں اور شاعری کی شاموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔"(...)

پیر-17 رجب 1445ہجری، 29 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16498]