خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک
TT

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک

خوجہ کی ڈائری۔۔ سوویت کے خاتمے سے لے کر ترکی میں پراسرار طریقے سے قتل کی کوششوں تک
سابق سعودی وزیر عبد العزیز محی الدین خوجہ نے اپنی ڈائری میں ایسے بہت سے پہلوؤں کا انکشاف کیا ہے جن کا سامنا انہیں سفارتی، سیاسی اور میڈیا کے میدانوں میں اپنے طویل کیریئر کے دوران سامنا کرنا پڑا ہے اور الشرق الاوسط کو اس ڈائری کے نشر ہونے سے پہلے اس کی ایک کاپی ملی ہے۔
خوجہ ماسکو میں سفیر کے طور طور پر کام کرنے کے دوران اس وقت روک سے گئے جب انہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کا مشاہدہ کیا اور انہیں ترکی میں سعودی سفارتکاروں کے ساتھ پراسرار قتل کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس کے بعد انہوں نے مراکش، لبنان اور وزارت اطلاعات میں کئی سال کام کئے۔
بیروت میں "تجربہ ... ثقافت، سیاست اور میڈیا کے باہمی رابطوں" کے عنوان سے "میزیں" کے ذریعہ شائع کردہ اس کتاب میں سفیر خوجہ کے سفارتی کام کے رازوں کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات موجود ہیں اور اس کتاب میں ان ممالک میں جہاں انہوں نے کام کیا ہے وہاں کے کچھ اہم سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بھی ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے۔(۔۔۔)
جمعرات 10 رجب المرجب 1441 ہجرى - 05 مارچ 2020ء شماره نمبر [15073]


"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
TT

"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)

کسی ادیب یا فنکار کے لیے اس کے اپنے ملک میں میوزیم قائم کرنے کا خیال اپنے اندر ایک عمدہ اور خوبصورت معنی رکھتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتوں کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت کا گھر وطن کے لوگوں کو عزت و تکریم دینے کی سوچ اور ورثے کو بچانے کی فکر کے ساتھ علم اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی بین الاقوامی مثالیں ہیں، جن میں روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا "یاسنیا پولیانا" میوزیم، 1925 سے لندن میں واقع "چارلس ڈکنز" میوزیم اور امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں امریکی مصنف مارک کا گھر شامل ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں اس طرح کی مثالوں کی کمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی تعداد کم ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ثقافتی رجحان کے معیار کے سامنے ان عجائب گھروں کے کمزور پڑتے کردار اور اثر و رسوخ کو بحال اور زندہ  کیسے کیا جائے؟

اس تناظر میں "الشرق الاوسط" نے اپنی اس تحقیق میں دانشوروں اور ادیبوں کی آراء اور مصنفین کے عجائب گھروں کو زیادہ سرگرم اور اثر انگیز بنانے کے لیے ان کی تجاویز کا جائزہ لیا ہے۔

شوقی اور طحہ حسین

عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ادبی عجائب گھر موجود ہیں، جیسا کہ امیر الشعراء احمد شوقی کا میوزیم ہے، جسے "کرمہ ابن ہانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور عربی ادب کے سربراہ طحہ حسین کے لیے خاص "رامتان" ثقافتی مرکز، جب کہ نجیب محفوظ میوزیم اس ضمن میں نیا ہے۔ لیکن یہ میوزیم عام لوگوں پر اثر انداز ہونے سے دور کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی مستقبل کے منصوبے ہیں؟

احمد شوقی میوزیم کی کیوریٹر امل محمود کہتی ہیں: "وزارت سیاحت کے ساتھ ایک پروٹوکول پر دستخط کرکے اس میوزیم کو سیاحتی نقشے پر رکھا گیا ہے، جس کا مقصد خصوصی کمپنیوں کے ذریعے اس جگہ کو فروغ دینا اور وزارت تعلیم کے ساتھ دوسرے تعاون کے پروٹوکول کے علاوہ اسے اپنے سیاحتی پروگراموں میں شامل کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "میوزیم (فیس بک) پر اپنے آفیشل پیج پر یومیہ ثقافتی خدمات فراہم کرتا ہے جو امیر الشعراء کے ورثے کو متعارف کرانے سے متعلق ہے۔ میوزیم سوموار اور جمعہ کے علاوہ صبح 9:00 بجے سے شام 4:00 بجے تک کھلا رہتا ہے جس کی بہت معمولی ٹکٹ ہے۔ جب کہ ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتہ کو میوزیم کے دروازے مفت کھولتے ہیں۔ ہم تعلیمی سیزن کے دوران طلباء اور اسکالرز کا اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف شہریتوں کے حامل زائرین کی ایک بڑی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم بہت سی تخلیقی ورکشاپس، فنکارانہ ملاقاتیں اور شاعری کی شاموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔"(...)

پیر-17 رجب 1445ہجری، 29 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16498]